“شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا رحم کرنے والا مہربا ن ہے”
یہ تمہاری امت ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا پروردگار ہوں تو میری ہی عبادت کیا کرو۔
مذہبی سلامتی کا پیغام
مصنف: استاد حیدر حب اللہ
مترجم: محمد عباس ہاشمی
نظر ثانی: کاچو نوازش علی
ناشر: ادارہ فروغ آگاہی و شعور۔ پاکستان
فون نمبرز: 0321-4824041 ، 0312-6066769
نام کتاب: مذہبی سلامتی کا پیغام
تألیف: حیدر حب اللہ
ترجمہ: محمد عباس ہاشمی
نظر ثانی: کاچو نوازش علی خان
فائنل پروف:۱۔ع۔جعفری
طبع اوّل: ۲۰۱۷ء
قیمت: ۳۰۰ روپے
ملنے کا پتہ
حق برادرز، غزنی سٹریٹ ،اردو بازار۔لاہور
کریم پبلیکیشنز ، غزنی سٹریٹ ، اردو بازار۔لاہور
ضامن بک ڈپو، کربلا گامے شاہ۔لاہور
ناشر: ادارہ فروغ آگاہی و شعور ۔پاکستان
فون نمبرز: 0321-4824041 ، 0312-6066769
عرض ناشر
جو تفرقے اقوام کے آیا تھا مٹانے
اس دین میں خود تفرقہ اب آ کے پڑا ہے
جس دین نے غیروں کے تھے دل آ کے ملائے
اس دین میں اب بھائی خود بھائی سے جدا ہے
2
وہ دین جو رواداری، تحمل اور برداشت کا درس لے کر آیا تھا آج اس کے ماننے والے فکری اعتبار سے اس قدر انحطاط اور زبوں حالی کا شکار ہو چکے ہیں کہ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ اسلام کے نام پر بننے والی مملکت خداداد کے شہریوں کو عالمی سازش کے تحت انتہائی عیاری اور چالاکی کے ساتھ آپس میں مسلکی بنیادوں پر تقسیم کر دیا گیا ہے کہ اب پاکستان کے اندر آپ کو شیعہ، بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث، صوفی، اسماعیلی، نور بخشی و۔۔۔۔ سب ملیں گے لیکن کوئی پاکستانی نہیں ملے گا۔ دوسری طرف سے سرمایہ دار اور جاگیر دار اس ملک کے تمام وسائل پر قابض ہیں اور پورے ملک کی دولت پر چند خاندان اور اشرافیہ آپس میں بندر بانٹ کر رہے ہیں جبکہ مذہبی طبقہ کو اس قدر فرصت نہیں کہ وہ معاشرے کے استحصالی طبقات کی نجات کیلئے جدوجہد کریں کیونکہ ان سب کا ھمّ وغم اپنے اپنے فرقے کی ترویج ہے۔ یہ مسجدیں بناتے ہیں تو اسلام کے نام پر نہیں فرقے کے نام پر؛ مدرسے بنیں گے تو مسلک کیلئے جہاں دوسرے مسلک کے طالب علم کیلئے کوئی جگہ نہیں ہوتی؛ حلقہ درس و معرفت ہوں گے تو اپنے فرقے کیلئے۔ ہماری دانست میں فرقہ وارانہ انتہا پسندی کے پرچار کا سب سے بڑا ذریعہ مسلکی بنیاد پر بننے والے مذہبی مراکز ہیں کیونکہ ان مراکز کے اندر ہر مسلک و فرقہ جہاں کھل کر اپنے خیالات و تصورات کی تاویلیں اور تشریحیں کرتا ہے، وہیں پر دوسرے مسلک پر کفرو شرک کی تہمتیں لگانے سے گریز نہیں کرتا لیکن اگر اسے معلوم ہو کہ یہ اسلام کی مسجد یا مدرسہ ہے اور اس میں ہر مسلک و فرقے کے مسلمان داخل ہو سکتے ہیں تو تبلیغ کے انداز پر بڑا فرق پڑے گا انہی باتوں کو زیر بحث لایا جائے گا جن پر سب کا اتفاق یا کم از کم اختلاف ہو؛ ہر فرقے کے احترام کا لحاظ ہو گا اور اشتعال انگیز مواد سے حتی المقدور اجتناب کیا جائے گا اور ظاہر سی بات ہے کہ اس سے بین المذاہب ہم آہنگی کی بنیادیں مضبوط ہوں گی ، رفتہ رفتہ ایک دوسرے کے بارے میں غلط فہمیاں دور ہو جائیں گی اور انتہا پسندی کی فکر کا قلع قمع ہو گا۔
الحمد للہ ہر مسلک و فرقے میں ہمیشہ ایسے لوگ موجود رہے ہیں جنہوں نے مختلف مذاہب و مسالک کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کے ازالے کیلئے امن و محبت کی شمعیں روشن کی ہیں اور انہی کی برکت سے ابھی تک دشمن، اسلام اور اہل اسلام کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کے مکروہ ہدف کو حاصل نہیں کر سکے اور زیر نظر کتاب اسی سلسلے کی ایک شمع فروزاں ہے۔
ہم سب کی من حیث القوم یہ ذمہ داری ہے کہ مذہبی امن و آشتی کے پیغام کی حامل اس مشعل کو گھر گھر میں روشن کریں اور مسلمانوں کو اسلام کی حقیقی روح سے متعارف کرائیں؛ نفرت و انتہا پسندی کی تاریکیوں کو شعور و آگاہی کے اجالوں سے کافور کر دیں۔ محبت، امن، بھائی چارے، رواداری، حب الوطنی اورعدل و انصاف کے کلچر کو فروغ دے کر اپنی اسلامی اور ملکی ذمہ داریوں کو ادا کریں کہ ادارہ فروغ شعور و آگاہی کا قیام اسی مشن کو آگے بڑھانے کیلئے عمل میں لایا گیا ہے۔
دعا ہے کہ خداوند عالم پوری مسلم امہ کے اندر مذہبی سلامتی اور ہم آہنگی کا شعور اجاگر فرمائے اور اس امت کو مل کر عالمی سامراج پر غلبہ پانے میں کامیاب فرمائے۔
مقدمه
فجر اسلام کے آغاز میں مسلمان اپنے نبی ﷺکے گرد پروانہ وار جمع ہو کر وحی آسمانی اور تعلیمات الٰہیکو اخذ کرتے تھے۔ اسلام کا پیغام، الٰہی تائید اور محمدی سرپرستی کے ساتھ ساتھ شمع رسالت کے پروانوں کی محنت سے چار سو پھیل رہا تھا۔
مسلمان تعداد میں کم اور ایک پسی ہوئی اقلیت تھی، انہیں ظلم وستم، دشمنی و عداوت اور سرکشی کا سامنا تھا لیکن وہ آپس میں متحد تھے اور ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے۔ انہوں نے عقد مواخات میں اعانت و تعاون، سماجی میل جول اور باہمی معاونت و کفالت کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا۔ اس واقعے نے دعوت اسلامی کے سفر پر گہرے اثرات مرتب کیے اور اس وقت کے مسلمانوں میں وحدت و الفت کو راسخ کر دیا۔ یہ انہی لوگوں میں سے تھے (جو کچھ عرصہ قبل تک) ایک دوسرے سے جنگ و جدال میں مصروف رہتے تھے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿ … هُوَ الَّذي أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَ بِالْمُؤْمِنينَ ٭ وَ أَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنْفَقْتَ ما فِي الْأَرْضِ جَميعاً ما أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَ لكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزيزٌ حَكيمٌ﴾[1]
( اس نے آپ کی تائید، اپنی نصرت اور صاحبان ایمان کے ذریعہ کی ہے اور ان کے دلوں میں محبّت پیدا کردی ہے کہ اگر آپ روئے زمین کی ساری دولت خرچ کردیتے تو بھی ان کے دلوں میں باہمی الفت پیدا نہیں کر سکتے تھے لیکن خدا نے یہ الفت و محبّت پیدا کردی ہے کہ وہ ہر شے پر غالب اور صاحب حکمت ہے)
یہ الفت و محبت اسلام اور اس کی اقدار و تعلیمات کی وجہ سے تھی اور یہ تعلیمات، قلوب اور نفوس میں جا گزین ہو رہی تھیں تاکہ ایک ایسی نئی قوم تیار کی جا سکے جو مختصر مدت میں دنیا کا نقشہ تبدیل کر دے۔
مسلمانوں کے اندر اِدھر اُدھر کے ذاتی یا غیر ذاتی اختلافات کا پیدا ہونا ایک فطری امر تھا، اس دور میں رسول اللہ ﷺکی موجودگی اور اسلامی اقدار اور قرآنی تعلیمات کی وسیع پیمانے پر مسلسل فراہمی کی بدولت بہت سی ایسی مشکلات کا سدباب ہوتا رہا۔ دوسری جانب، باہمی اختلاف رکھنے کے حوالے سے انسانوں کی فطری حالت جوں کی توں ہے۔ اس رو سے مسلمانوں کی پوری تاریخ میں یہ قانون حیات اور اصول اختلاف ان پر بھی لاگو رہا۔
ہم اس وقت رسول اکرم ﷺکی رحلت کے بعد ظاہر ہونے والے شدید اختلافات کی بنیادی وجوہات اور اسباب کو متعین کرنے کے درپے نہیں ہیں کہ آیا ان اسباب کا کوئی اخلاقی جواز تھا یا نہیں؟ یا یہ مسلمانوں کے اجتہاد کی وجہ سے تھے؟ یا یہ کہ یہ سب کچھ اقتدار کے حصول کی سازش یا رسہ کشی تھی؟ وغیرہ۔
ہمارے لیے تشویش کی بات یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺکے وصال کی گھڑی سے تاریخ اسلام نے کروٹ بدل لی اور رفتہ رفتہ ایک لڑھکتے ہوئے برفانی تودے کا روپ دھارتے ہوئے اہل اسلام کے درمیان تفریق کی ایسی لکیر کھینچ ڈالی کہ وہ فرقوں، مذاہب اور جماعتوں میں بٹ کر آمنے سامنے کھڑے ہو گئے اور ایک دوسرے کا خون بہانے لگے ۔۔۔ ۔
ہمارا ہدف اسلامی امت کے ٹکڑیوں میں بٹنے کی ذمہ داری کسی پر عائد کر دینا نہیں ہے بلکہ ہمارا مقصود امت کو اس حالت زار سے نکالنا ہے۔ کتاب و سنت کی نصوص کو سمجھنے میں ہمارا باہمی اختلاف ایک فطری امر ہے کہ ہم میں سے کچھ لوگ کسی نص میں اجتہاد کر کے کسی چیز کے وجوب کو سمجھتے ہیں جبکہ کچھ لوگ اس وجوب کو نہیں سمجھتے یا ہم میں سے بعض، کسی خاص آیت کو کسی خاص شخصیت کے حق میں گواہی قرار دیتے ہیں جبکہ دوسرے لوگ اس گواہی کو نہیں سمجھ رہے ہوتے ۔۔۔۔ اور یہ بات صرف اسلامی تاریخ میں ہی نہیں ہے بلکہ ہم اسے ہر دین کی تاریخ میں دیکھتے ہیں اور اس کی وجہ حقیقت کا کھوج لگانے کے حوالے سے انسانی عقل کی محدودیت ہے۔
تاہم یہ مسئلہ اس وقت گھمبیر ہو جاتا ہے کہ جب یہ (فطری) اختلاف کسی (غیر فطری) مخالفت کی بنیاد بن جائے اور اس کے باعث لوگوں میں جدائیاں پڑ جائیں، مسلمان ایک دوسرے سے دور ہو جائیں بلکہ اس کی وجہ سے ان کے خون بہنے لگیں، ہر ایک اپنے بھائی سے بدظن ہو جائے۔ ایسی صورتحال میں اسلامی معاشرہ پارہ پارہ ہو جاتا ہے اور باہمی تنازعات اور قتل و غارت کی وجہ سے مسلمان کمزور ہو جاتے ہیں۔
اس سے زیادہ نقصان دہ امر یہ ہے کہ ان مذہبی اختلافات میں زیادہ بحث و تمحیص کرنے اور ان کا دامن پھیلانے سے علمی و انقلابی تبدیلیاں رونما ہونے کی بجائے تشویش میں اضافہ ہوتا ہے! پس ان اشتعال انگیزیوں اور فکری تحرّکات کی اس وقت تک کوئی حیثیت نہیں ہے کہ جب تک ان سے انقلابی اور معرفتی تبدیلیاں ظاہر نہ ہوں۔
آج یہ سب کچھ اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنے ضمیر، اپنے دین، اپنی تاریخ اور پوری انسانیت کے سامنے رک کر یہ سوچیں ۔۔۔۔ کہ ہم پر کیا کرنا واجب ہے؟! اور ہم کس طرح اس نفرت بھری فرقہ واریت سے باہر نکل سکتے ہیں کہ جس میں دن بدن تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے؟!
ہم وطن اور امت کو آس پاس کے فرقہ وارانہ حباب اور ماحول سے کس طرح محفوظ رکھ سکتے ہیں اور اپنے وطن و امت میں کس طرح شعورو آگاہی پیدا کر سکتے ہیں کہ جس کی بدولت وہ ہلاکت میں نہ پڑیں اور مذہبی جذبات اور فرقہ وارانہ رجحانات کے پیچھے نہ چلیں۔
ہم آئے روز دین، مذہب، جماعت اور فرقے کا دفاع کرنے کے نام پر مسلمانوں کو ایک دوسرے کا خون بہاتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کی باہمی لڑائی؛ ان لڑائیوں سے کہیں زیادہ سخت، پرتشدد، بے رحم، اخلاقیات سے دور اور دردناک ہے جو انہوں نے ماضی میں دیگر اقوام سے لڑی تھیں! علی کاموالی شیعہ ابوبکر کے موالی سنی کے ساتھ کچھ اس انداز سے جھگڑتا ہے کہ جس کی مثال خود علی و ابوبکر میں نہیں ملتی! اور حنبلی، حنفی و ۔۔۔ کا جعفری کے ساتھ تنازعہ اس اختلاف سے کئی سو گنا زیادہ سخت ہے جو امام جعفر بن محمد الصادقکا ابو حنیفہ نعمان کے ساتھ تھا!
اس کے ساتھ ساتھ ہم اس دین کو ماننے والے ہر انسان کے تشخص، اس کے امتیازات، اس کے عقائد اور اس کے افکار کی کس طرح حفاظت کریں تاکہ ہم اس کے اپنے بھائی کے ساتھ مستحکم اور گہرے تعلق اور اس کے ان کلامی و فقہی عقائد و خیالات کو ایک ساتھ لے کر چل سکیں کہ جن میں ہم اس کے اجتہاد کا احترام کرتے ہیں ؛وہ کوئی بھی ہو؟!
بعض اوقات ان سوالات کا جواب خاصہ تفصیل طلب ہوتا ہے لیکن ایک اقدام یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کو زیادہ سے زیادہ پہچانیں اور ایک دوسرے کو تحقیقی اور آگاہانہ ذہنیت سے ملیں اور دوسری طرف سے ہم میں سے ہر ایک دوسرے کو اپنے بارے میں بتائے تاکہ گمانہ زنیوں کی بنا پر اس کا بھائی دائیں بائیں ہو کر بھٹک نہ جائے۔
اسی طرح ان اقدامات میں سے ایک یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک دوسرے کی طرف اپنا ہاتھ بڑھائے تاکہ ہم مثبت اختلاف پر ایک دوسرے سے موافقت کریں اور منفی اختلاف کو دور اٹھا پھینکیں اور امت میں خون خرابے کو بند کر سکیں اور زخموں پر نمک چھڑکنے سے پرہیز کریں، میری مراد تاریخ کے وہ زخم ہیں جن سے کئی صدیوں سے خون رِس رہا ہے تاکہ ہم اپنے حال کو تاریخ میں تبدیل ہونے سے بچا سکیں اور الٹے پیر پلٹنے سے باز رہیں اور اپنی تاریخ کے (جدید و آگاہانہ مطالعہ سے) بہتر حال اور مستقبل کی تعمیر کریں۔ اس سے ہمیں میل جول اور محبّت کے عناصر ملیں گے۔ بجائے یہ کہ ہم دوری اور افتراق کا مواد ڈھونڈنے میں لگے رہیں یا تاریخ برائے تاریخ میں ہی غرق رہیں؛ ہمیں میل جول اور محبت کے عوامل کا کھوج لگانا ہو گا۔
اس سنگین ذمہ داری کے حقیقی احساس،ضمیر کی فریاد جو ہمارے وجود کی اتھاہ گہرائیوں میں پوشیدہ ہے، اس بہت بڑی آفت جس کا ہم سب کو سامنا ہے، اس گہری تشویش جس نے بحیثیت امت ہمارے مستقبل کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور ان خطروں کے ادراک جو پیکرِ اسلام کے سر پر منڈلا رہے ہیں؛ کی وجہ سے یہ کتاب/پیغام پیش خدمت ہے تاکہ ہم وہ امر پہنچا دیں جس کا اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے اور ان ذمہ داریوں میں سے کچھ کا بوجھ ہلکا کریں جو دنیا بھر کے مسلمانوں کی نسبت سے ہمارے دوش پر ہیں اور اس کٹھن دور میں کلمہ حق کہہ سکیں۔
ہماری یہ ادنیٰ سی کتاب دنیا بھر کے مسلمانوں کے نام ایک کھلا خط ہے خواہ وہ شیعہ ہوں یا سنی، اباضیہ ہوں یا کوئی اور۔۔۔۔ یہ محبت و مودت کے پیغام کی حامل ہے، اخوت و قرابت کے پیغام کی حامل ہے، صدق و اخلاص کے پیغام کی حامل ہے، حرف دل کے اظہار و بیان پر مبنی پیغام کی حامل ہے، اپنی ذات اور دوسرے پر ناقدانہ نگاہ ڈالنے کے پیغام کی حامل ہے، ایک نیا افق کھولنے کے پیغام کی حامل ہے، اس میں ہم اہل بیت اور ان کے پیروکاروں کے مذہب کا تعارف کرائیں گے یعنی مذہب شیعہ امامیہ اثنا عشریہ کا اور ان افکار، امنگوں، ذمہ داریوں، امیدوں، آرزوؤں، تحقیقات اور خدشات کو برملا و آشکار کریں گے جو فرزندانِ مذہب امامیہ کے یہاں موجود ہیں یا جن کا بوجھ ان کے کاندھوں پر ہے، ہم ان کے عقائد، فقہ، طرز عمل، دوسروں ٍسے تعلقات،مکاتب فکر، کامیابیوں اور ان کے اوپر عائد تاریخی ذمہ داریوں کا مختصر تعارف پیش کریں گے۔
یہ خط عظیم اسلامی دنیا میں شامل ہر فرد کے نام ہے، اس میں ہم ایک دوسرے سے بےتکلّف ہوں گے، اپنے اپنے جذبات و خدشات کا کھل کر اظہار کریں گے اور دوسروں کے خدشات کی نسبت اظہار خیال کریں گے تاکہ ہم اپنے آپ کو اور دوسروں کو درست راہ پر گامزن کر سکیں۔
ہم اسلامی امت کی حیات کے تاریخی اور سرنوشت ساز لمحات میں رہ رہے ہیں اور اس کتاب سے ہمارا ہدف صرف ان لمحات کی فریاد پر لبّیک کہنا، تاریخ کے حصار کو توڑنا، دین و مذہب کے تازہ ترین شعور کی طرف بڑھنا اور تمام اسلامی مذاہب کی طرف ہاتھ بڑھانا ہے تاکہ ہم سب مل کر اس امت کی عظمت رفتہ کو بحال کر سکیں کہ جس نے بارہا، انسانی تمدن کی تاریخ کے کسی نہ کسی دور کی تشکیل کی ہے۔
آج ہم (مذہب اہل بیت کا بہت بڑا حصہ ہونے کے عنوان سے) صراحت کے ساتھ پوری دنیا اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے نام اپنا کھلا خط پیش کر رہے ہیں۔ یہ خط میل جول، امن و سلامتی، ہم وطنوں کی سی زندگی اور ایک دوسرے کو حقوق، سہولیات، احترام، تجلیل اور اچھے گمان سے نوازنے کے پیغام کا حامل ہے تاکہ ہم سب داخلی سطح پر اپنے اپنے وطن کو ایک ایسا محفوظ قلعہ بنا سکیں کہ جسے تیز ہوائیں متزلزل نہ کرسکیں اور شرانگیزی، موت اور فتنے کے طوفان لرزہ براندام نہ کر سکیں۔
یہ خط بہت سوں کو پسند آئے گا لیکن ہو سکتا ہے کہ کچھ اپنے یا پرائے اس سے ناراض بھی ہوں اور جب ہم اپنے افکار و عقائد کی بات کرتے ہیں کہ جن میں بعض اوقات ہم سے بعض شیعہ بھی اختلاف کرتے ہیں تو اس سے ہمارا مقصود یہ ہوتا ہے کہ ہم موجودہ صف بندیوں کے حوالے سے اپنے موقف اور افکار کو متعین کر دیں۔
یہ باذن اللہ محبت کا پیغام ہے ، یہ مذہبی سلامتی کا پیغام ہے یہ وطن، امت، معاشرے اور تہذیب وتمدن کا پیغام ہے اور اللہ ہماری باتوں پر گواہ ہے۔
حیدر محمد کامل حب اللہ
۱۰ رمضان المبارک ۱۴۳۶ھ
۲۸/۷/۲۰۱۵ء
تمهيد
مذہب امامیہ اثنا عشریہ ان بہت سے مشترکہ نکات پر ایمان رکھتا ہے جن پر تمام مسلمانوں کا ایمان ہے اور اس مذہب کے دیگر مذاہب کے ساتھ اختلافی امور میں سے اکثر ایسے ہیں جن کے بارے میں خود ان مذاہب کا بھی باہم اختلاف ہے۔ پس امامیہ اور دیگر اسلامی مذاہب کے اختلافی عقائد میں سے بہت سے امور ایسے ہیں جن کے بارے میں خود دوسرے اسلامی مذاہب بھی ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے ہیں۔ جیسے ماتریدی، سلفی، اشعری، معتزلی، صوفی، اباضی، زیدی وغیرہ۔
یہ اختلاف صرف عقائدی امور تک محدود نہیں ہے بلکہ تاریخی مسائل اور صدر اسلام کے واقعات کی سطح پر بھی ہمیں یہی صورتحال دیکھنے کو ملتی ہے اور اسی طرح فقہی و عملی مسائل میں بھی ہے ۔۔۔ ۔
ہم اس بحث میں اپنی بساط بھرکوشش کریں گے کہ اصل موضوع میں داخل ہونے کی تمہید کے عنوان سے (انتہائی اختصار کے ساتھ) ایک طرف سے مذہب امامیہ کے کلی عقائد اور دوسری جانب سے اس مذہب کے اندر اجتہاد و شریعت کے کلی خطوط کی مختصر تصویر کشی کر دیں۔
مذهب اماميه کے كلى عقائد
مذہب امامیہ شیعہ اثنا عشریہ دینی و اسلامی عقائد کے اصولوں پر کچھ ممتاز خصوصیات کے ساتھ یقین رکھتا ہے اور ان کے نزدیک یہ خصوصیات اسلامی عقائد کے مسائل میں ان کے خاص اجتہاد کی عکاس ہیں جنہیں انہوں نے کتاب و سنت اور اپنے تک پہنچنے والی عقلی و نقلی دلیلوں کی رو سے سمجھا ہے۔ یہاں پر توحید، عدل، قضا و قدر، صفات الٰہی، نبوت، امامت اور معاد وغیرہ جیسے مسائل میں ان کے عقائد کی مختصر تصویر کشی کی جائے گی۔
ہم انہیں درج ذیل محوروں کے ضمن میں پیش کریں گے:
پهلا محور: الوهيّت (توحيد ذاتى)
امامیہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے موجود ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک وہ اپنے وجود میں کسی غیر کا محتاج نہیں ہے۔ اسی طرح وہ اس کی وحدانیت پر ایمان رکھتے ہیں اور یہ کہ وہ واحد، احد، فرد اور صمد ہے، نہ اس نے کسی کو اپنی بیوی بنایا ہے اور نہ بیٹا، حکومت میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور ہر چیز کی مکمل تقدیر مقرر کی ہے۔
امامیہ کے عقیدے کی رو سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ اول، آخر، ظاہر اور باطن ہے اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے، وہی ہے جو آسمان و زمین میں معبود ہے: ﴿ هُوَ اللَّهُ الَّذِي لا إِلَهَ إِلا هُوَ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ۞هُوَ اللَّهُ الَّذِي لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ ۞هُوَ اللَّهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الأسْمَاءُ الْحُسْنَى يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالأرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴾[2]
)وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ غیب و شہود کا جاننے والا ہے، وہی رحمن و رحیم ہے۞ وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہی بادشاہ ہے، نہایت پاکیزہ، سلامتی دینے والا، امان دینے والا، نگہبان، بڑا غالب آنے والا، بڑی طاقت والا، کبریائی کا مالک، پاک ہے اللہ اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں ۞وہ ایسا خدا ہے جو پیدا کرنے والا، ایجاد کرنے والا اور صورتیں بنانے والا ہے اس کے لئے بہترین نام ہیں زمین و آسمان کا ہر ذرّہ اسی کے لئے محوِ تسبیح ہے اور وہ صاحبِ عزت و حکمت ہے(
امامیہ کے نزدیک اسمائے حسنیٰ اور صفاتِ عُلیا اللہ سے مخصوص ہیں۔ وہ مجرد ہے، مادہ و مادیات ، جسم و جسمانیات اور صورت و شبیہ سے بلند ہے۔ پس وہ نہ ابعاد کا حامل ہے اور نہ ہی زمان، مکان، کیف، کم ، أین اور متیٰ کے تحت ہے۔
اسی طرح وہ عرض نہیں ہے کہ موضوع کا محتاج ہو، نہ معلول ہے کہ علت کا محتاج ہو، نہ ممکن ہے کہ واجب الوجود کا محتاج ہو، نہ ہی کسی بھی جہت سے ناقص ہے کہ کسی کامل کا محتاج ہو، نہ اپنے غیر کے متعلق ہے بلکہ سب کچھ اس کے متعلق ہے، نہ اسے دیکھا جا سکتا ہے اور نہ ہی ظاہری حواسّ سے محسوس و ملموس کیا جا سکتا ہے اور کوئی بھی چیز اس سے مشابہ نہیں ہے، نہ کوئی اس کی مانند ہے اور نہ کوئی اس کا نظیر ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ فَاطِرُ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضِ جَعَلَ لَكمُ مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَ مِنَ الْأَنْعَامِ أَزْوَاجًا يَذْرَؤُكُمْ فِيهِ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شىَْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ۞ لَهُ مَقَالِيدُ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضِ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ وَ يَقْدِرُ إِنَّهُ بِكلُِّ شىَْءٍ عَلِيمٌ﴾[3]
(وہی آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے، اسی نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس کے جوڑے بنائے اور چوپایوں کے بھی جوڑے بنائے، اس طرح سے وہ تمہاری افزائش کرتا ہے، اس جیسی کوئی چیز نہیں ہے اور وہ خوب سننے والا ، دیکھنے والا ہے۞ آسمانوں اور زمین کی کنجیاں اس کی ملکیت ہیں وہ جس کے لیے چاہتا ہے رزق میں کشادگی اور تنگی دیتا ہے، وہ یقینا ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے)
اسی طرح امامیہ کے نزدیک الہٰیات میں کچھ اہم نکات پر بحث ہوتی ہے، جن میں سے نمایاں ترین یہ ہیں:
پهلى بحث: توحيد
ذات مقدّسِ الٰہی کے اثبات کے بعد شیعہ امامیہ توحید پر ایمان رکھتے ہیں جو اسلام کی اساس ہے اور ان کے نزدیک اس کے متعدد معانی و مظاہر ہیں، جن میں سے اہم ترین یہ ہیں:
۱۔ توحيد ذاتى
اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ واحد ہے اس کا کوئی مثل و ثانی و نظیر نہیں ہے، نہ اس کا کوئی شبیہ و ہم پلہ ہے اور اس کی ذات بسیط ہے جس میں نہ ترکیب ہے اور نہ ہی اس کے اجزا ہیں پس وہ سرے سے ہی نہ قابل تجزیہ ہے اور نہ ہی قابل ترکیب۔ اس معنی کے اعتبار سے ہر طرح کی تثلیث باطل ٹھہرتی ہے۔
بعض اوقات علمائے امامیہ مرکب ہونے کی نفی پر “توحید أحدی” اور مثیل و شبیہ رکھنے کی نفی پر “توحید واحدی” کا اطلاق کرتے ہیں۔
۲۔ توحيد صفاتى
(امامیہ کے عقیدے کی رو سے) تمام صفات کمالیہ اپنے جمال و جلال کے ساتھ اللہ سبحانہ تعالیٰ سے مخصوص ہیں۔ جیسے علم، قدرت، حیات، ارادہ، سمع، بصر، خلق، قِدَم، صمدیّت اور غنیٰ وغیرہ۔
اس کی ساری صفات ذاتیہ اس کی ذات سے خارج نہیں ہیں بلکہ اس کی عین ذات ہیں اور کثرت صرف ذہن اور مفہوم میں ہے۔ پس اللہ کا کوئی ایسا جزونہیں ہے جو قدرت ہو اور کوئی دوسرا جزو علم ہو بلکہ اس کی قدرت بعینہ اس کا علم ہے۔
البتہ اس کی صفات فعلیہ جیسے خلق، رزق وغیرہ ایسی ہیں جنہیں مقام فعل سے اخذ کیا گیا ہے۔ جب وہ خلق کرتا ہے تو اسے خالق کا عنوان دیا جاتا ہے۔
اسی وجہ سے امامیہ صفات الٰہی کو صفات ذات اور صفات فعل کی طرف تقسیم کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ صفات ذات جیسے علم و قدرت اس کی ذات سے جدا نہیں ہیں بلکہ اس کی عین ذات ہیں جبکہ صفات فعل ایسی صفات ہیں جنہیں اللہ سبحانہ کے فعل سے انتزاع کیا جاتا ہے ۔ پس وہ خلق سے پہلے خالق نہیں تھا بلکہ خلق پر قادر تھا اور خلق کرنے کے بعد اسے بالفعل خلق کی صفت سے متصف کیا جائے گا۔
۳۔ توحيد در خلقت
اس کا معنی اس امر کا عقیدہ رکھنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی خالق نہیں ہے اور یہ کہ باقی سارے صنّاع اس کے بنائے ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ اسی طرح ہے جیسے اس نے اپنی توصیف کی ہے:﴿…فَتَبارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخالِقينَ ﴾[4](پس بابرکت ہے وہ اللہ جو بہترین خالق ہے) وہی ہے جس نے ہر شے کو خلق کیا ہے اور اسے کسی چیز نے خلق نہیں کیا اور وہ کسی چیز سے خلق نہیں ہوا۔
مشہور امامیہ بلکہ ان کے متکلمین کا تقریبا اس امر پر اجماع ہے کہ عالم حادث اور مخلوق ہے۔ البتہ بعض فلاسفہ عالَم کو قدیم سمجھتے ہیں لیکن ان کے فرض و اعتبار میں قدیم سے مراد یہ نہیں ہے کہ عالَم اس طرح سے غنی یا واجب الوجود بن گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس کا خالق شمار نہ کیا جاتا ہو، تاہم وہ(عالَم) زمان کی نسبت سے قدیم ہے، ذات کی نسبت سے حادث ہے، وجود کی نسبت سے نیازمند ہے اور یہ بطور مُدام اللہ تعالیٰ سے مربوط ہے بلکہ وہ ان امور کو فیض الٰہی کہ جو لمحہ بھر کیلئے بھی منقطع نہیں ہوتا؛ کی صفات کمال میں سے سمجھتے ہیں۔
۴۔ توحيدِ ربوبى
اس سے مقصود یہ ہے کہ اس عالم کا مدبِّر وہی معبود ہے کہ جس نے اسے خلق کیا ہے اور اللہ نے یہ کائنات کسی کے سپرد نہیں کی ہے کہ وہ اسے چلائے اور اس میں اس طرح سے حکومت کرے کہ اللہ تعالیٰ اس سے دور ہو کر ایک طرف ہو جائے اور اس کی اس کائنات کہ جس کو اس نے خود خلق کیا ہے؛ میں نہ کوئی تاثیر ہو اور نہ کوئی کردار بلکہ کائنات کی ہر تدبیر اللہ سے ہی مخصوص ہے اور وہ بالکل اسی طرح سے ہے جیسا کہ اس نے اپنی کتاب میں اپنے بارے میں کہا ہے چنانچہ فرماتا ہے: ﴿ إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذي خَلَقَ السَّماواتِ وَ الْأَرْضَ في سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوى عَلَى الْعَرْشِ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ ما مِنْ شَفيعٍ إِلاَّ مِنْ بَعْدِ إِذْنِهِ ذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ أَ فَلا تَذَكَّرُونَ﴾[5](یقینا تمہارا رب وہ اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کوچھ دنوں میں پیدا کیا پھر اس نے عرش پر اقتدار قائم کیا، وہ تمام امور کی تدبیر فرماتا ہے، اس کی اجازت کے بغیر کوئی شفاعت کرنے والا نہیں ہے، یہی اللہ تو تمہارا ربّ ہے پس اس کی عبادت کرو، کیا تم نصیحت نہیں لیتے؟)
﴿قُلْ مَنْ يَرْزُقُكُمْ مِنَ السَّماءِ وَ الْأَرْضِ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَ الْأَبْصارَ وَ مَنْ يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَ يُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَ مَنْ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ فَسَيَقُولُونَ اللَّهُ فَقُلْ أَ فَلا تَتَّقُونَ۞ فَذَالِكمُُ اللَّهُ رَبُّكمُُ الْحَقُّ فَمَا ذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلَالُ فَأَنىَ تُصْرَفُونَ ﴾[6]
(کہہ دیجیے: تمہیں آسمان اور زمین سے رزق کون دیتا ہے؟سماعت اور بصارت کا مالک کون ہے؟ اور کون ہے جو بے جان سے جاندار کو اور جاندار سے بے جان کو پیدا کر تاہے؟اور کون امور (عالم ) کی تدبیر کر رہا ہے؟ پس وہ کہیں گے: اللہ، پس کہدیجیے: تو پھر اس سے کیوں نہیں ڈرتے ہو؟ وہی اللہ تمہارا برحق پروردگار ہے اور حق کے بعد ضلالت کے سوا کچھ نہیں ہے تو تم کس طرح لے جائے جارہے ہو؟!)
انشاء اللہ آگے چل کر امامت کی بحث میں اہل بیتکی ولایت تکوینی کے حوالے سے بعض امامیہ کے عقیدے پر بات کریں گے اور اسی طرح امامیہ اور باقی اسلامی مذاہب کے مابین حل طلب مسائل کی بحث کے ضمن میں بھی اسے بیان کیا جائے گا۔
۵۔ توحيد در عبادت اور شيعه کے نزدیک غير الله كو سجدہ كرنے كى حرمت
اس کا شیعہ کے نزدیک مطلب یہ ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی بھی عبادت جائز نہیں ہے وہ کوئی بھی ہو اور یہ کہ صرف اور صرف معبودِ واحد کی عبادت ہی تمام انبیاءکا دستور العمل اور شعار تھا اور یہ کہ ہم اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں نہ غیر کے اور یہ کہ دین اسلام کو اختیار کرنے کا شعار﴿ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ إِيَّاكَ نَسْتَعينُ ﴾[7] ہے۔ اسی لیے شیعہ صرف قربۃ ًالی اللہ کی نیت سے ہی نماز ، روزہ ، حج اور زکوٰۃ جیسی عبادتیں بجا لاتے ہیں بلکہ غیر اللہ کیلئے عبادات بجا لانے کی صورت میں انہیں شرعی اعتبار سے باطل سمجھتے ہیں اور ان کا اعادہ کرنے کو واجب قرار دیتے ہیں بلکہ اس طرح کی عبادات حرام ہیں۔ اسی طرح ان کی فقہ میں عبادت کے قصد سے غیر اللہ کو سجدہ کرنا بھی حرام ہے۔
آیت اللہ سید ابو القاسم خوئی متوفی ۱۴۱۳ھ جو تاریخ میں شیعہ امامیہ کے بڑے مراجع میں سے ایک ہیں، یہ کہتے ہیں: غیر اللہ کو سجدہ کرنا حرام ہے، اس میں معصومیناور ان کے غیر میں کوئی فرق نہیں ہے اور جو سجدہ شیعہ آئمہکے مزارات میں کرتے ہیں اس کیلئے بھی ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کیلئے ہو اور ان کی زیارت اور ان کی ضریح کے پاس حاضر ہونے کا شکر ادا کرنے کی نیت سے ہو[8]۔
شيعه اماميه كى جانب سے اولاد كے نام “عبد الحسين” وغيره ركهنے كى وجه
امامیہ جو اپنی اولاد کا نام عبد الحسین، عبد الزہرا، عبد المحسن، عبد العلی، عبد المہدی وغیرہ رکھتے ہیں (اگرچہ دور حاضر میں یہ نام شیعہ امامیہ کے یہاں کم ہوتے جا رہے ہیں) تو ان ناموں سے ان کا قصد ہرگز عبودیت کا وہ معنی نہیں ہوتا جس کا الوہیت کے مسئلہ سے تعلق ہے، ان کا اس سے مقصود عبودیت بمعنی خدمت ہے گویا ہم نبی اور اہل بیت کے خادم ہیں، ان کی اطاعت کرتے ہیں اور ان کے احکام پر عمل کرتے ہیں اور معلوم ہونا چاہئیے کہ “عبد نبی” ایک ایسا نام ہے جو مراکش کے بعض سنی شہروں میں بہت زیادہ رائج ہے۔
یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ شیعہ کے یہاں کوئی ایسی شرعی نص نہیں ہے اور نہ ہی اہل بیتسے کوئی ایسی حدیث ہے جس میں ایسے نام رکھنے کا کہا گیا ہو یا ان کی ترغیب دی گئی ہو اور یہ امر شیعہ کی ساری تاریخ میں بالکل بھی رائج نہیں تھا سوائے گزشتہ چند صدیوں سے وگرنہ معاجم، فہارس، رجال، تراجم اور جرح و تعدیل کی کتب اس امر پر شاہد ہیں کہ شیعہ (اور ان میں سے امامیہ) سرے سے اپنی اولادوں کے اس قسم کے نام نہیں رکھتے تھے۔
فرض کرتے ہیں کہ ایسے نام رکھنے میں شرعی اشکال ہے (جیسا کہ بعض علمائے اہل سنت نے یہ فتویٰ دیا ہے) لیکن پھر بھی یہ ایک فقہی اختلاف ہو گا جو اس کلمے سے زبردستی یہ معنی مراد لینے کی اجازت نہیں دیتا کہ یہ مخلوق کا مخلوق کی عبودیت پر عقیدہ ہے اور توحید کے منافی ہے، ایسا کیونکر ممکن ہے جبکہ وہ گروہ (شیعہ امامیہ) واشگاف الفاظ میں کہہ رہا ہے کہ ان ناموں سے ہرگز ایسے کسی معنی کا قصد نہیں ہے کہ جس میں شرک ہو۔
انشاء اللہ آگے چل کر ہم ان تمام امور کے بارے میں بحث کریں گے جو شیعہ امامیہ کے شعائر، ان کی اہل بیتسے محبت و مودّت، ان کے مزارات مقدّسہ کی زیارت اور ان چیزوں میں شرک کے شائبے سے مربوط ہیں۔
دوسرى بحث: اسما و صفات الٰهى
شیعہ امامیہ کے نزدیک اسما و صفات الٰہی کی بنیاد صفات ثبوتیہ اور صفات سلبیہ پر ہے:
۱۔ صفاتِ ثبوتيه ايجابيه
ان سے مراد ہر کمال کا خدا کیلئے اثبات ہے اور یہ ان کے نزدیک صفات ذات اور صفات فعل میں منقسم ہوتی ہیں:
۱۔ صفات ذات
یہ وہ ہیں جو ہرگز ذات سے جدا نہیں ہوتیں اور ان میں سے بنیادی صفات درج ذیل ہیں:
پهلی صفت: علم
اللہ کو اپنی ذات کا ازلی و ابدی علم ہے اور اپنے ماسوا کا بھی ہراعتبار سے علم ہے، اس کے واقع ہونے سے پہلے، واقع ہونے کی حالت میں اور واقع ہونے کے بعد۔ اسی طرح علم الٰہی کی کوئی حد نہیں ہے اور تمام کلیات و جزئیات اس علم کے تحت ہیں۔
البتہ کچھ فلاسفہ (جن میں سنی و شیعہ فلسفی شامل ہیں) کے یہاں جزئیات کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے علم کی ایک خاص تحلیل ہے لیکن امامیہ، اہل سنت اور ان کے علاوہ دیگر جمہور متکلمین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ، بغیر کسی حد بندی کے ہر شے کا ازلی و مطلق علم رکھتا ہے اور اس حوالے سے وہ عقلی و نقلی دلائل کا سہارا لیتے ہیں۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَ عِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ وَ يَعْلَمُ مَا فىِ الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ مَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُهَا وَ لَا حَبَّةٍ فىِ ظُلُمَاتِ الْأَرْضِ وَ لَا رَطْبٍ وَ لَا يَابِسٍ إِلَّا فىِ كِتَابٍ مُّبِينٍ﴾[9]
(اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور وہ خشکی اور سمندر کی ہر چیز سے واقف ہے اور کوئی پتہ نہیں گرتا مگر وہ اس سے آگاہ ہوتا ہے اور زمین کی تاریکیوں میں کوئی دانہ اور خشک و تر ایسا نہیں ہے جو کتاب مبین میں موجود نہ ہو)
﴿وَ قَالَ الَّذِينَ كَفَرُواْ لَا تَأْتِينَا السَّاعَةُ قُلْ بَلىَ وَ رَبىِّ لَتَأْتِيَنَّكُمْ عَالِمِ الْغَيْبِ لَا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فىِ السَّمَاوَاتِ وَ لَا فىِ الْأَرْضِ وَ لَا أَصْغَرُ مِن ذَالِكَ وَ لَا أَكْبَرُ إِلَّا فىِ كِتَابٍ مُّبِينٍ﴾[10]
(اور کفّار کہتے ہیں کہ قیامت آنے والی نہیں ہے تو آپ کہہ دیجئے کہ میرے پروردگار کی قسم وہ ضرور آئے گی وہ عالم الغیب ہے اس کے علم سے آسمان و زمین کا کوئی ذرّہ دور نہیں ہے اور نہ اس سے چھوٹا اور نہ بڑا بلکہ سب کچھ اس کی روشن کتاب میں محفوظ ہے)
بہت سے لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ شیعہ کا عقیدہ “بدا” اللہ تعالیٰ کی طرف جہل کی نسبت دینے کے مترادف ہے اور اس میں اللہ سبحانہ کے سامنے ایسی چیز ظاہر ہوتی ہے جو پہلے ظاہر نہیں تھی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس عقیدے (جیسا کہ بعد میں شیعہ امامیہ متکلمین نے اسے واضح صورت میں بیان کیا ہے) کا مطلب اللہ تعالیٰ کی قدرت مطلقہ کے سوا کچھ نہیں ہے کہ وہ اپنے سابقہ علم کے موافق مقرر کردہ امور میں ردوبدل پر قادر ہے۔ پس وہ انسان کی عمر کو بدل دیتا ہے مثال کے طور پر اس انسان کے دعا کرنے کی وجہ سے لیکن یہ ایسی تبدیلی نہیں ہے جو معاذ اللہ جہل کے نتیجے میں واقع ہوئی ہو بلکہ یہ صرف لوحِ محو و اثبات میں کچھ اس انداز کی تبدیلی ہے کہ سابق اور لاحق تقدیریں لوح محفوظ اور لوح قضائے حتمی میں ثبت ہیں۔
پس بدا کا مطلب یہ ہے کہ اللہ ہمارے لیے کسی چیز کو ظاہر کرتا ہے پس ہم اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور گویا تغیّر وتبدّل حاصل ہوا ہے لیکن یہ تغیر جو حاصل ہوا ہے یہ لوح قضائے حتمی کا جزو ہے جو اللہ کے نزدیک پہلے سے ہی ثابت تھا۔
دوسرے لفظوں میں: بدا عالم وجود پر حکمفرما قوانینِ تغییر کا نام ہے۔ جو صلہ رحم کرتا ہے تو مثال کے طور پر اس کی عمر طولانی ہو جاتی ہے، صلہ رحمی سے پہلے اس کی مقررہ عمر پچاس سال تھی لیکن صلہ رحمی کے بعد مثلا ساٹھ سال ہو جاتی ہے۔ بعبارت دیگر، امور عالم میں تغیر و تبدل کے قوانین اور اسباب و مسبّبات پر مبنی نظام کا اعتراف ہی بدا ہے جبکہ وہ قانون اور اس کا ماقبل و مابعد، خدا کے علم میں ہے اور لوح محفوظ میں ثَبت ہے۔
اگر کلمہ “بدا” سے کچھ لوگ مشتعل ہو جاتے ہیں (حالانکہ یہ صحیح بخاری[11] جیسی بعض اہل سنت کتب میں بھی وارد ہوا ہے، اسی طرح اس کا مضمون بہت سی سنی احادیث میں وارد ہوا ہے جیسے صدقہ و دعا قضا کو بدل دیتے ہیں) تو اس کیلئے عرض ہے کہ مسئلہ لفظ کا نہیں ہے کیونکہ اہم چیز مفہوم ہے۔ اس بنا پر ہمیں شیعہ امامیہ کے عقیدے کو دیکھ کر کوئی موقف اختیار کرنا چاہئیے نہ کہ لفظ یا تلفظ کو دیکھتے ہوئے!
شیعہ امامیہ مسئلہ بدا کو اس لیے اہمیت دیتے ہیں کیونکہ یہ دنیوی زندگی میں اعمال کی نتائج پر تاثیر اور فلسفہ دعا و جواز دعا وغیرہ کے بیان میں بنیادی کردار کا حامل ہے۔
دوسرى صفت: قدرت
اللہ تعالیٰ اپنی مشیت، ارادے اور اختیار کے ساتھ فعل اور ترک پر قادر ہے اور اس کے پاس قدرت کی صفت، ازلی، ابدی، ذاتی اور مطلق و غیر محدود ہے۔
تاہم جن موارد میں قدرت کا تحقق محال ہے جیسے اللہ دو نقیضوں کو اکٹھا خلق کرے تو یہاں ان کے نزدیک عجز، قدرت و فاعل میں نہیں ہے بلکہ دریافت کنندہ اور قبول کنندہ میں ہے۔
انہوں نے علم کی صفت کی طرح قدرت کو ثابت کرنے کے لیے بھی عقل و نقل سے استدلال کیا ہے اور وہ یہ کہ اللہ سبحانہ کیلئے عاجزی کا ثابت ہونا اس کے لامحدود کمال کے خلاف ہے چونکہ اس سے وہ غیر کا محتاج ہو جائے گا جبکہ وہ فرماتا ہے: ﴿وَ أُخْرَى لَمْ تَقْدِرُواْ عَلَيْهَا قَدْ أَحَاطَ اللَّهُ بِهَا وَ كاَنَ اللَّهُ عَلىَ كُلِّ شىَْءٍ قَدِيرًا﴾[12] (اور دیگر (غنیمتیں) بھی جن پر تم قادر نہ تھے، وہ اللہ کے احاطہ قدرت میں آ گئیں اور اللہ ہر چیز پر خوب قادر ہے)
تيسرى صفت: حيات
یہ ان صفات میں سے ہے جن کی تفسیر میں اختلاف ہے چنانچہ بعض نے اسے علم، قدرت اور ارادے کی طرف پلٹایا ہے۔ بہرصورت اللہ تبارک و تعالیٰ کیلئے موت و فنا بالکل نہیں ہے۔
اللہ سبحانہ نے ہمیں اپنے بارے میں خبر دی ہے، چنانچہ فرماتا ہے:
﴿اللَّهُ لا إِلهَ إِلاَّ هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَ لا نَوْمٌ لَهُ ما فِي السَّماواتِ وَ ما فِي الْأَرْضِ مَنْ ذَا الَّذي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلاَّ بِإِذْنِهِ يَعْلَمُ ما بَيْنَ أَيْديهِمْ وَ ما خَلْفَهُمْ وَ لا يُحيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلاَّ بِما شاءَ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّماواتِ وَ الْأَرْضَ وَ لا يَؤُدُهُ حِفْظُهُما وَ هُوَ الْعَلِيُّ الْعَظيمُ ﴾[13]
(اللہ جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے زندہ بھی ہے اوراسی سے کل کائنات قائم ہے، اسے نہ نیند آتی ہے نہ اُونگھ، آسمانوں اور زمین میں جو کچھ بھی ہے سب اسی کا ہے،کون ہے جو اس کی بارگاہ میں اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرسکے جو کچھ لوگوں کے روبرو ہو رہا ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہوچکا ہے؛ سب کوجانتا ہے اور وہ اس کی معلومات میں سے کسی چیز پر دسترس حاصل نہیں کر سکتے ہاں جس قدر وہ چاہتا ہے (اسی قدر معلوم کرا دیتا ہے) اس کی بادشاہی (اور علم) آسمان اور زمین سب پر حاوی ہے اور اسے ان کے تحفظ میں کوئی تکلیف بھی نہیں ہوتی وہ عالی مرتبہ بھی ہے اور صاحبِ عظمت بھی)
ب۔ صفات فعل
اور وہ بہت سی ہیں جیسے خالقیت، رازقیت، مدبریت، ربوبیت، قہاریت وغیرہ۔
صفات فعل میں سے ایک اللہ تعالیٰ کا متکلم ہونا ہے اور امامیہ میں معروف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ، اپنی مخلوق کے ساتھ وحی کے ذریعے یا پیغام رساں فرشتے کے ذریعے یا پردے کے پیچھے سے ہم کلام ہوتا ہے۔
﴿وَ ما كانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلاَّ وَحْياً أَوْ مِنْ وَراءِ حِجابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولاً فَيُوحِیَ بِإِذْنِهِ ما يَشاءُ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكيمٌ ﴾[14] (اور کسی آدمی کے لئے ممکن نہیں کہ خدا اس سے بات کرے مگر الہام (کے ذریعے) سے یا پردے کے پیچھے سے یا کوئی فرشتہ بھیج دے تو وہ خدا کے حکم سے جو خدا چاہے القا کر دے، بیشک وہ عالی رتبہ (اور) حکمت والا ہے)
اس کا کلام، آوازوں کی اس طرح سے تخلیق کی مثل ہے کہ انبیاءانہیں سن لیتے ہیں۔ یہ صفاتِ فعل میں سے ہے نہ کہ صفات ذات میں سے اور اس کی بازگشت صفتِ خلق کی طرف ہوتی ہے۔
اسی طرح انہوں نے ذکر کیا ہے کہ کلام اللہ کا اطلاق اس کے فعل یا فعل کے نتیجہ پر بھی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ قُلْ لَوْ كانَ الْبَحْرُ مِداداً لِكَلِماتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ كَلِماتُ رَبِّي وَ لَوْ جِئْنا بِمِثْلِهِ مَدَداً ﴾[15]
(کہہ دیجئے: میرے پروردگار کے کلمات (ساری کائنات و موجودات کو لکھنے) کے لیے اگرسمندر روشنائی بن جائیں تو سمندر ختم ہو جائیں گے لیکن میرے رب کے کلمات ختم نہیں ہوں گے چاہے ان کی مدد کے لئے ہم ویسا ہی سمندر اور بھی لے ائیں)
اسی تناظر میں امامیہ کا ایمان ہے کہ قرآن کریم اللہ کا خلق کردہ کلام ہے، نہ یہ قدیم ہے اور نہ ہی حادث کیونکہ اس کا کلام اس کا فعل ہے۔ بہت سے علمائے اہل سنّت کا اس میں اختلاف ہے۔
اسی طرح ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صدق ہے کیونکہ کذب اور وعدہ خلافی اس کیلئے محال ہے۔
اسی طرح اس کی صفات میں سے ایک حکمت ہے پس اس کے افعال انتہائی درستگی اور مضبوطی سے انجام پاتے ہیں کہ ہر شے اپنی جگہ پر ہوتی ہے ۔ اسی طرح وہ ایسے فعل کو انجام دینے سے منزّہ ہے جسے انجام دینا سزاوار نہ ہو۔
۲۔ صفاتِ سلبيه
عقیدہ امامیہ کی رو سے یہ وہ صفات ہیں جو اللہ کی تقدیس و پاکی کی عکاس ہیں اور یہ بہت زیادہ ہیں:
منجملہ: وہ جسم نہیں ہے اور اسے نہ دیکھا جا سکتا ہے اور نہ ہی حواس میں سے کسی کے ذریعے درک کیا جا سکتا ہے، نہ دنیا میں اور نہ ہی آخرت میں؛ کیونکہ وہ غیر مادی ہے اور نہ وہ کسی مکان میں ہے اور نہ ہی زمان میں اور نہ ہی کسی جہت میں کہ اسے دیکھا جا سکے۔ تاہم اللہ تعالیٰ کی قلبی رؤیت سے کوئی چیز مانع نہیں ہے۔
انہوں نے رؤیت کی نفی کے حوالے سے (عقلی ادلّہ کے ساتھ ساتھ) قرآن کریم کی نص سے استدلال قائم کیا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَ هُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ وَ هُوَ اللَّطيفُ الْخَبيرُ ﴾[16](نگاہیں اسے پا نہیں سکتیں اور وہ نگاہوں کا برابر ادراک رکھتا ہے کہ وہ لطیف بھی ہے اور خبیر بھی ہے)
منجملہ: اس کی نہ کوئی حد ہے، نہ تقسیم ہوتا ہے اور نہ ہی اس کا کوئی جزو ہے اور نہ ہی ان کے علاوہ کوئی بھی ناقص صفت اس میں ہے۔
منجملہ: اس کا کوئی شریک نہیں ہے، نہ شبیہ، نہ ہم پلہ اور نہ مثل۔ نہ وہ اپنے غیر کے ساتھ ایک ہوتا ہے اور نہ اپنے غیر میں حلول وغیرہ کرتا ہے۔
وہ تمام قرآنی آیات اور احادیث جن کے ظاہر سے تشبیہ، رؤیت اور تجسیم کا وہم ہوتا ہے؛ ان سب کی امامیہ نے ابتدائی معانی سے ہٹ کر تفسیر کی ہے اور انہوں نے اس کے لغوی جواز بھی پیش کیے ہیں۔ ان آیات و احادیث کے معانی پر روشنی ڈالنے میں ان کا بہت بڑا حصہ ہے جس کیلئے ان کی مفصل کتب کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔
تيسرى بحث: عدلِ الٰهى
شیعہ امامیہ، عدلِ الٰہی پر ایمان رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو ہرگز کسی پر ظلم کا فاعل نہیں سمجھتے بلکہ اس کے فعل میں کامل عدل و انصاف ہوتا ہے۔ جیسا کہ نصوص یہی کہتی ہیں اور عقول یہی حکم لگاتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لا إِلَهَ إِلا هُوَ وَالْمَلائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴾[17]
(اللہ نے خود شہادت دی ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں اور اہل علم نے بھی یہی شہادت دی،وہ عدل قائم کرنے والا ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے)
مزید برآں یہ کہ اللہ تعالیٰ صرف عدل کا ہی حکم دیتا ہے تو کیونکر عادل نہ ہو گا؟! اللہ سبحانہ فرماتا ہے: ﴿إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الأمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا﴾[18](بے شک اللہ تم لوگوں کو حکم دیتا ہے کہ امانتوں کو ان کے اہل کے سپرد کر دو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل و انصاف کے ساتھ کرو، اللہ تمہیں مناسب ترین نصیحت کرتا ہے، یقینا اللہ تو ہر بات کو خوب سنتا، دیکھتا ہے)
اور اللہ سبحانہ فرماتا ہے: ﴿ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ﴾[19](بیشک اللہ عدل، احسان اور قرابتداروں کے حقوق کی ادائیگی کا حکم دیتا ہے اور بدکاری، ناشائستہ حرکات اور ظلم سے منع کرتا ہے کہ شاید تم اسی طرح نصیحت حاصل کرلو)
(کتاب و سنّت کی نصوص کے علاوہ) اس کی بڑی بنیاد یہ ہے کہ امامیہ حسن و قبح عقلی کے قائل ہیں اور ان کے نزدیک عقل، ظلم کے قُبح اور عدل کے حُسن کا حکم لگاتی ہے اور ان کے نزدیک اللہ فعلِ قبیح انجام نہیں دیتا کیونکہ اس کی ذات اکمل و کامل ہے اور ایسی ذات صرف حَسَن و کامل کو ہی چاہتی ہے۔ اسی لیے نہ وہ لوگوں پر ظلم کرتا ہے، نہ جھوٹ بولتا ہے، نہ وعدہ خلافی کرتا ہے اور اس کا عدل تکوین(کائنات) و تشریع(شریعت) دونوں کو شامل ہے۔ ہم کائنات میں جو کچھ بھی دیکھ رہے ہیں وہ اس کے عدل کا مظہر ہے۔
رہی بات قدرتی آفات کی تو ان سے مخلوق کو بہت سے فائدے پہنچتے ہیں اگرچہ انہیں وہ بظاہر آفت محسوس ہوتے ہیں بلکہ اس مقام پر ایک فلسفی رائے بھی ہے جس کو بعض علمائے امامیہ بھی قبول کرتے ہیں؛ کہ شر ایک ایسا امر ہے جس کا کوئی وجود نہیں ہے بلکہ وہ معدوم ہے اور اس حوالے سے ان کے یہاں تفصیلی فلسفی مباحث ہیں۔
اسی طرح اس کی شریعت بھی عدل کی شریعت ہے اور ظلم کی شریعت نہیں ہے اور یہی حال اس کے ثواب و عقاب میں ہے پس وہ عادل بلکہ رحیم ہے۔
قضا و قدر
امامیہ کا قضا و قدر پر ایمان ہے اور اس کے ساتھ ساتھ انسانی اختیار اور انسانی آزادی پر بھی ایمان ہے۔ پس نہ جبر ہے اور نہ ہی تفویض بلکہ امر، بین الامرین ہے جیسا کہ یہ اہل بیت پیغمبرکا مشہور مقولہ ہے۔
اللہ کا علم جو فعلِ اختیاری کے متعلق ہے؛ جبر کا موجب نہیں ہے بلکہ بالعکس یہ ان کے نزدیک بعینہ اختیار کا موجب ہے کیونکہ اللہ کا یہ علم کہ فلاں شخص اپنے اختیار سے فلاں گناہ کا ارتکاب کرے گا ۔۔۔۔ تو یہ علم اس شخص پر یہ فرض نہیں کرتا کہ وہ شخص اس گناہ کو خدا سے مجبور ہو کر انجام دے بلکہ بالعکس اس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اسے اپنے اختیار سے کرے۔ اس لیے کہ اگر اس نے یہ گناہ اپنے اختیار کے بغیر کیا تو اس سے علم الٰہیمیں خلل لازم آئے گا کیونکہ فرض یہ ہے کہ اللہ کو یہ علم ہے کہ بندہ اس گناہ کا ارتکاب اپنے اختیار سے کرے گا پس اگر اس نے مجبور ہو کر ایسا کیا تو علم الٰہی کا امرِ واقع کے مطابق نہ ہونا لازم آئے گا۔
دوسرى محور: نبوّت و رسالت
دیگر مسلمان فرقوں کی طرح امامیہ کا بھی بعثت و نبوت کے عقیدے پر ایمان ہے اور وہ اسے بشر پر،الٰہی جود و فیض کا نمونہ سمجھتے ہیں اور یہ کہ عقل تمام مصالح و مفاسد کو پہچاننے سے عاجز ہے یا پھر وہ “نفس امّارۃ بسوء” کے رجحانات کے سامنے عام طور پر مجبور ہوتی ہے۔ پس انبیاء و رسل کی بعثت واجب ہے تاکہ لوگوں کو حق اور صراط مستقیم کی طرف ہدایت کی جا سکے۔
نبوتوں کا ہدف توحید کا احیا اور واحد و حق معبود کی عبادت کو راسخ کرنا ہے، اس طرح کہ اللہ کی توحید، انسانی حیات کے تمام پہلوؤں میں سرایت کر جائے اور وہ اس ذات کو عالم ہستی کا تنہا مؤثر قرار دے۔ یوں اسے اللہ سبحانہ کیلئے رضا، تسلیم، قبول، خضوع، پستی اور عبودیت حاصل ہوں گی۔
اسی طرح نبوّتوں کا ہدف؛ عدل کا قیام، لوگوں کے مابین انصاف، بشر کے باہمی تنازعات کا حل و فصل اور ان سب کو اللہ کی معلّق رسّی(نور ہدایت)؛ کو مضبوطی سے پکڑے رہنے کی ترغیب دلانا ہے۔
نبوتوں کے ذریعے ہی بندوں پر حجت تمام ہوتی ہے جس کے نتیجے میں لوگوں پر خدا کی قطعی حجت تمام ہو جاتی ہے اور ان کی خدا پر کوئی حجت باقی نہیں رہتی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ …﴾[20] (بتحقیق ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل دے کر بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کیا ہے تاکہ لوگ عدل قائم کریں)
پس انبیاء کی بعثت، ایک بدیہی و لازمی امر ہے اور اس کا سرچشمہ لوگوں پر الٰہی جود وعطا اور لطف ہے۔ امامیہ نے اس کی یہی تعریف کی ہے اور اس حوالے سے یہ ان کا عقیدہ ہے۔ اس لیے وہ تمام انبیاء پر ایمان رکھتے ہیں اور بعض روایات میں وارد ہوا ہے کہ انبیاء کی تعداد تقریبا ۱۲۴۰۰۰ ہے اور انہوں نے طول تاریخ میں انبیاء کی کثرت پر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے استدلال کیا ہے: ﴿ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَإِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلا خَلا فِيهَا نَذِيرٌ﴾[21] (ہم نے آپ کو حق کے ساتھ بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بناکر بھیجا ہے اور کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس میں کوئی ڈرانے والا نہ گزرا ہو)
امامیہ کے نزدیک نبوّت کی پہچان یا تو بعد میں آنے والے کسی خاص نبی کے بارے میں گزشتہ نبی سے معلوم ہونے والی کسی قطعی نص کے ذریعے ہوتی ہے یا اس کی بعثت پر شواہد اور حتمی دلائل قائم ہوتے ہیں کہ جن میں سے سرفہرست ایسی چیز کو پیش کرنا ہے کہ جس کی مثل لانے سے ساری مخلوق عاجز ہو۔ اس سے یہ معلوم ہو گا کہ اسے اللہ سبحانہ کی تائید حاصل ہے وگرنہ یہ لازم آئے گا کہ اللہ سبحانہ نے غیرنبی کے ہاتھ پر معجزہ جاری کر کے بندوں کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے جو کہ قبیح ہے اور اللہ ہر قسم کے نقص اور قبیح فعل سے منزّہ ہے اور جب کسی نبی کی نبوت ثابت ہو جائے تو اس کی پیروی اور اس کی اطاعت اور اس پر ایمان اور اس کی تصدیق واجب ہے۔
امامیہ نبوت کو (دیگر مسلمانوں کی طرح) ایک الٰہی منصب سمجھتے ہیں کہ جس تک بشر کی کوئی رسائی نہیں ہے اور یہ کہ یہ نبی کا عالم اعلیٰ کے ساتھ غیبی اتصال ہے یا فرشتہ کی رؤیت کے ذریعے یا اسے سننے کے ذریعے یا ایسے دیگر ذرائع سے۔ اسی لیے نبوّت، انبیاء کی کوئی فکری تخلیق نہیں ہے اور نہ ہی انبیاء معاشرے کے صرف مصلحین ہیں جیسا کہ کچھ جدت پسندوں کا خیال یہی ہے بلکہ یہ انتہائی بلند و بالا مقام ہے جو بشری کاوشوں سے اوپر ہے حتی غیر معمولی کاوشوں سے بھی۔
انبياء و رسل کى عصمت
نبی ایک غیر معمولی شخصیت کا مالک ہوتا ہے۔ اس لیے جمہور امامیہ نے کہا ہے کہ اس کا ہر اعتبار سے معصوم ہونا واجب ہے: وحی دریافت کرنے میں، اس کی تبلیغ کرنے میں، بعثت سے پہلے اور مبعوث ہونے کے بعد، بالغ ہونے سے پہلے اور بلوغ کے بعد، خلوت و جلوت میں؛ ہر قسم کے چھوٹے بڑے گناہ اور نافرمانی سے اور دین کی تبلیغ میں خطا سے بلکہ ہر ایسی نفرت انگیز چیز سے کہ جس کے باعث لوگ اس کی دعوت کو چھوڑ دیں اور جس کی وجہ سے لوگوں کی اس کے خلاف حجت قائم ہو جائے جیسے نسب کی نجابت و شرافت یا اس جیسے دیگر امور۔
امامیہ میں چند امور کے بارے میں اساسی اختلاف واقع ہوا ہے؛ جن میں سے نمایاں ترین یہ ہیں:
اوّل: سهو نبى
مشہور کا مذہب یہی ہے کہ انہیں سہو نہیں ہوتا جبکہ بعض علماء جیسے شیخ صدوق متوفی (۳۸۱ھ) اور ان کے استاد ابن ولید وغیرہ سہوِ نبی کے قائل ہیں اور ان کی دلیل وہ احادیث و روایات ہیں جن میں سے بعض صحیح السّند ہیں بلکہ بعض نے انہیں متواتر احادیث میں سے شمار کیا ہے۔
دوّم: خارجى موضوعات ميں خطا
یعنی کیا ممکن ہے کہ نبی ایسے امور میں خطا کرے جن کی بازگشت دین کی طرف نہیں ہے جیسے ان کا تیر نشانے پر نہ لگنا؟! بہت سے علماء اس کے عدمِ جواز کے قائل ہیں جبکہ کچھ اس کے جواز کے بھی قائل ہیں کیونکہ ان کے نزدیک یہ چیز ان کی نبوت اور منزلت کیلئے نقصان دہ نہیں ہے۔
حضرت محمد ﷺ کى رسالت كا عقيده
یہ وہ کلی نظریاتی حدود ہے جسے امامیہ نے نبوت کیلئے قائم کیا ہے اور انہوں نے اس کی تطبیق حضرت محمد ﷺ کی نبوت خاصہ پر کی ہے اس لیے کہ انہوں نے یہ مذہب اختیار کیا ہے کہ محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب ،نبی اور رسول ہیں اور ان کا ہمیشہ باقی رہنے والا معجزہ قرآن کریم ہے، اگرچہ قرآن کریم کے علاوہ نبی ﷺکے دیگر معجزات کی تعداد اور نوع کے بارے میں ان کے درمیان اختلاف ہے کہ جن میں سے انہوں نے شق قمر، معراج ۔۔۔ جیسے معجزات کو ذکر کیا ہے۔ البتہ اس موضوع پر چند ایک سوالات بھی اٹھائے گئے ہیں۔
حضرت محمدﷺ كى رسالت کى عالمگيريت اور جاويدانگى
امامیہ کے نزدیک (دیگر مسلمانوں کی طرح) حضرت محمد ﷺکی رسالت اس امر میں نمایاں ہے کہ یہ عالمگیر، ابدی اور کامل ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ رسالتوں کی خاتم ہے، سابقہ شریعتوں کی ناسخ ہے اور یہ کہ جو بھی محمد ﷺکے بعد نبوت کا دعویٰ کرے وہ راہ حق سے دور، اہل باطل یا جھوٹا یا کذّاب یا وہمی ہے۔
اسی طرح یہ رسالت اس امر میں بھی نمایاں ہے کہ اس کے حامل (محمد ﷺ) تمام انسانوں میں سے اکمل، انتہائی برگزیدہ، خاتم انبیاء اور زینتِ رسل ہیں۔ کوئی ایسی مخلوق نہیں ہے جو اللہ کی بارگاہ میں آپ ﷺسے زیادہ باشرف، باکمال یا عالی مرتبت ہو اور یہ کہ بشر پر آپ کی اطاعت و پیروی اور اتباع، آپ سے محبت و مودت اور وفا، آپ کے ذکر و شان کی سربلندی اور دلوں میں آپ کے مقام کی تعظیم، احترام اور تجلیل؛ لازم ہے۔
البتہ محمدﷺ (اپنے بلند مقام کے باوجود) معبود نہیں ہیں اور نہ ہی خالق ہیں اور نہ ہی بندوں کے رب ہیں بلکہ وہ دیگر مخلوقات کی طرح اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی مخلوق ہیں۔
کتاب و سنّت کى مرجعيّت اور تحريفِ قرآن کا مسئله
چونکہ قرآن کریم اس رسالت محمدیہ کی کتاب ہے اس لیے شیعہ اس پر پورا ایمان رکھتے ہیں اور مشہور و جمہور امامیہ کی رائے یہ ہے کہ قرآن کریم میں کسی قسم کی تحریف نہیں ہے، نہ ہی کوئی زیادتی ہوئی ہے اور نہ ہی کمی اور یہ جو بین الدفتین(دو جلدوں کے درمیان) ہے یہ وہی کتاب ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول محمد ﷺپر نازل کی ہے۔
بعض علماء (جو بہت کم ہیں) نے یہ مذہب اختیار کیا ہے کہ قرآن میں زیادتی نہیں ہوئی البتہ کمی ہوئی ہے (ان میں سے شیخ حسین نوری متوفی ۱۳۲۰ھ ہیں) یہ لوگ حدیث کے شیعہ و سنی دونوں مصادر میں موجود بعض روایات سے متاثر ہو گئے تھے۔ البتہ ان کے خیالات پر کڑی نکتہ چینی کی گئی ہے کہ جس سے امامیہ کے علوم قرآن، تفسیر اور کلام کی طرف رجوع کرنے والا ہر شخص واقف ہے۔
تاہم قرآن کی معنوی تحریف موجود ہے اور اس سے مراد اس کے معانی میں تحریف کرنا اور اس کی حقیقی صورت سے ہٹ کر تفسیر کرنا ہے۔ اسی طرح قراءات میں اختلاف موجود ہے۔ بعض امامیہ ان قراءات کے قطعی ہونے کے قائل ہیں جبکہ دیگر ان کے خبر واحد ہونے کی بات کرتے ہیں ۔
قرآن کریم کو معرفتِ دین کا مصدر ماننے کے ساتھ ساتھ شیعہ سنت نبوی پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو خواہشِ نفس کا مظہر نہیں ہے بلکہ وحیِ الٰہی کی ترجمانی کرتی ہے۔ وہ ایسی حدیث کو اخذ کرتے ہیں جو صحیح طریق سے ثابت ہو جائے اور حدیث شریف کے حوالے سے صرف اہل بیتکی روایتوں پر اکتفا نہیں کرتے جیسا کہ آگے چل کر اس موضوع پر بات ہو گی۔
تيسرا محور: امامت و خلافت
مسلمانوں کی تاریخ میں رسول ﷺکی رحلت ایک نازک موڑ تھا۔ اس وقت سے (جیسا کہ امامیہ کی رائے ہے) مسلمان تقسیم کا شکار ہیں۔ یہ اختلاف اس دلخراش قتل عام کی حد تک آگے بڑھ گیا جسے کربلا میں نبی ﷺکے اہل بیت کے ساتھ روا رکھا گیا۔
ممکن ہے کہ ان ایام میں شیعہ یا اہل تشیع کا نام (اس عنوان سے کہ یہ ایک ایسے مذہب کا نام ہے جو دوسرے مسلمانوں سے ممتاز ہے) موجود نہ ہو لیکن امامیہ قائل ہیں کہ متنازعہ مسائل موجود تھے کہ جن میں سے سرفہرست خلافت کا بحران تھا۔
شيعه اور اهل سنّت کى امامت و خلافت کو سمجهنے کى کيفيت
امامیہ، امامت و خلافت کے مسئلے کو جمہور اہل سنت کے مقابلے میں ایک مختلف نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اہل سنت ایک جہت سے اسے ایک تاریخی مسئلے کے عنوان سے دیکھتے ہیں اور دوسری جہت سے اسے ایک فقہی و سلطانی مسئلے کے عنوان سے دیکھتے ہیں۔ اسی لیے جمہور اہل سنت کے نزدیک اس مسئلے کا کوئی عقائدی پہلو نہیں ہے۔ تاہم شیعہ امامیہ اس موضوع کا مختلف انداز سے جائزہ لیتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ امامت کے مسئلے کا عقیدے سے تعلق ہے اور ہر مسلمان پر واجب ہے کہ اس پر ایمان رکھے۔ پس جو مر گیا اور اس نے اپنے زمانے کے امام کی معرفت حاصل نہ کی تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔
امامت کے منکر کے بارے میں امامیہ کا اختلاف ہے۔ کچھ اس کے کفر کے قائل ہیں جبکہ باقی اسے مسلمان سمجھتے ہیں (جیسا کہ متاخرین میں زیادہ مشہور یہی ہے)اور کہتے ہیں کہ ہم اس پر کفر کا حکم نہیں لگاتے بلکہ ہمارا اس کے ساتھ ویسا ہی تعلق ہے جیسے دوسرے شیعوں کے ساتھ ہے کہ اسے وراثت، نکاح، باہمی تعلقات اور مسلمانوں والے دیگر حقوق وغیرہ حاصل ہیں جب تک کہ وہ اہل بیت سے عداوت نہ کرے اور ان کے نزدیک علی ، اہل بیت اور ان کی ذریت کی دشمنی سے دین ختم ہو جاتا ہے اس مرحلے پر وہ شخص ناصبی ہو جائے گا اور اس پر کفر اور ملت سے خروج کا حکم لگے گا۔
اماميه کے عقيدے کى رو سے امامت كى ضرورت اور اس کا هدف
امامیہ کے نزدیک امامت، چار و ناچار ایک ضروری امر ہے جس کی دین اسلام کو نبوت کی دعوت کے استمرار، اس کی حفاظت اور اس کی حمایت کیلئے احتیاج ہے لیکن یہ انبیاء کے بغیر ہے کیونکہ محمد ﷺخاتم الانبیاء ہیں اوران کے بعد ہمیشہ کیلئے کوئی نبی نہیں ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺکی رحلت کے بعد آئمہکی تعیین کے ذریعے اسلامی دعوت کے استمرار کا ارادہ کیا ہے، اس ہدف کے ساتھ کہ اسلامی دعوت کو بہترین اور زیبا ترین صورت میں پہنچایا جائے اور ساتھ ساتھ اسے ہر قسم کے عمدی یا غیر عمدی انحراف، جھوٹ یا غلط تشریح سے بچایا جا سکے۔
امامت کا ہدف، خدانخواستہ رسول اللہ ﷺسے سرزد ہونے والے کسی نقص کی تلافی کرنا نہیں ہے۔ بلاشبہہ آپ ﷺنے انتہائی اچھے انداز میں تبلیغ فرما دی تھی۔ اس کے مندرجہ ذیل اہداف ہیں:
- انتہائی اچھے اور قابل اعتماد طریقے سے کتاب و سنت کی کامل ترین اور صائب ترین تفسیر پیش کرنا۔
- مسلمانوں کے امور کو احسن شرعی وسائل و اسالیب کے ذریعے چلانا۔
- دین، اس کے عقائد، اس کی تعلیمات اور الٰہی تکالیف کی حفاظت کرنا۔
- بدعتوں، انحرافات اور جھوٹی باتوں کا مقابلہ کرنا۔
- مسلمانوں کی حمایت، ان کا دفاع اور ان کی حفاظت کرنا۔
- عدل، حق و انصاف اور شرعی اصولوں کو نافذ کرنا۔
- مسلمانوں کی وحدت، باہمی ہم آہنگی، طاقت اور عزت کا دفاع کرنا۔
اسی طرح ان جیسے دیگر فرائض بھی رحلت رسول ﷺکے بعد امام کی دوش پر ہیں۔
امامت اور نص و تعيين الٰهى كا مسئله
امامیہ کے نزدیک عصر نبوی کے بعد درست مفروضہ یہی ہے کہ امام کا تقرر منجانب اللہ ہو گا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے امام و خلیفہ کو علامات، صفات اور نام کے ساتھ متعین کر دیا گیا ہے اور اس معاملے کو مسلمانوں پر نہیں چھوڑ دیا گیا کہ وہ اپنی مرضی سے کسی کو منتخب کر لیں۔ یہی چیز ہمیں بہت سی احادیث میں دیکھنے کو ملتی ہے جن میں امام علی ابن ابی طالب ، پھر ان کے بعد ان کی اولاد کے نام صراحۃً یا کنایۃً اس عنوان سے مذکور ہیں کہ یہ ہستیاں مسلمانوں کے دینی اور دنیوی امور کی سرپرستی کیلئے اللہ کے مقرر کردہ خلفاء ہیں۔
جیسا کہ حدیث دار میں ہے جس میں نبی ﷺنے امام علیسے فرمایا: (…أَنْتَ أَخِی وَ وَصِیی وَ وَزِیرِی وَ وَارِثِی وَ خَلِیفَتِی مِنْ بَعْدِی)[22]( آپ میرے بھائی، وصی، وزیر، وارث اور میرے بعد میرے خلیفہ ہیں)
اور حدیث منزلت میں نبی ﷺنے آپ سے فرمایا: (…أَمَا تَرْضَی أَنْ تَکونَ مِنِّی بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ، مِنْ مُوسَی)[23] (کیا آپ راضی نہیں ہیں کہ آپ کی میرے سے وہی منزلت ہو جو ہارون کی موسی ٰسے تھی)
اور حدیث غدیر میں رسول ﷺنے فرمایا: (… اللهم مَنْ كُنْتُ مَوْلاهُ، فعَلِىٌّ مَوْلاهُ. أَللّهُمَّ والِ مَنْ والاهُ، وَ عادِ مَنْ عاداهُ) [24]( اے اللہ! جس کا میں مولیٰ ہوں اس کے علیمولیٰ ہیں۔ اے اللہ! اسے دوست رکھ جسے علی دوست رکھیں اور اسے دشمن رکھ جسے یہ دشمن رکھیں )
اور حدیث ثقلین کہ جس میں نبی نے فرمایا: (…إِنِّي تَارِكٌ فِيْكُمُ الثَّقَلَيْنِ، أَحَدُهُمَا أَكبرُ مِنَ الآخَرِ، كِتَابُ اللَّهِ حَبْلٌ مَمْدُودٌ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الأَرْضِ وَعِتْرَتِي أَهْلُ بَيْتِي ، وَإِنَّهُمَا لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ) (میں تم میں دو گراں بہا(نفیس و قیمتی) چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں کہ جن میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے یعنی اللہ کی کتاب جو ایسی رسی کی مانند ہے جو آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی ہے اور دوسری چیز میری عترت یعنی اہل بیت ہیں اور یہ دونوں ہرگز جدا نہیں ہوں گے یہاں تک حوض کوثر پر میرے پاس وارد ہوں گے)[25]۔
اور حدیث سفینہ یہ ہے: ( إنّما مَثَلى و مَثَلُ أهلِ بَيتي كَسَفينَةِ نُوحٍ؛ مَن ركبها نَجا، و مَن تَخَلّفَ عَنها غَرِقَ)[26] (میری اور میرے اہل بیت کی مثال کشتی نوح کی سی ہے، جو اس پر سوار ہو گیا وہ نجات پا گیا اور جو اس سے رہ گیا وہ غرق ہو گیا)
اور حدیث امان امت ہے: (النُّجُومُ جُعِلَتْ أَمَانًا لأَهْلِ السَّمَاءِ ، وَإِنَّ أَهْلَ بَيْتِي أَمَانٌ لأُمَّتِي)[27] (ستارے اہل آسمان کیلئے امان ہیں اور میرے اہل بیت میری امت کیلئے امان ہیں)
نبی ﷺکے بعد بارہ خلفا کے آنے کی خبر: (يكون بعدي اثنا عشر خليفة، كلّهم من قريش)[28] (میرے بعد بارہ خلیفہ ہوں گے جو سب کے سب قریش سے ہیں)
اور اس کے علاوہ بہت سی ایسی احادیث ہیں کہ جن میں سے اکثر فریقین کی کتب میں مروی ہیں نہ فقط امامیہ کی کتب میں اور کثرت اَسناد (جو علی الاقل ان میں سے بعض احادیث میں ہے) کی وجہ سے حدّ تواتر کو جا پہنچی ہیں۔
اس لیے امامیہ کے نزدیک یہ اللہ اور رسول کی اطاعت کا تقاضا ہے کہ اس امام کی اطاعت کی جائے جسے انہوں نے خلافت کیلئے مقرر کیا ہے اور یہ کہ اللہ کی اطاعت میں امتیاز برتنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ پس یہ ہیں وہ نصوص جو رسول اللہ ﷺسے منقول ہیں اس کے علاوہ ایسی آیات ہیں جن کے سبب نزول کو دسیوں احادیث کے اندر بیان کیا گیا ہے، جیسے:
آيت ولايت:
﴿ إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ ﴾[29]
(تمہارا ولی تو صرف اللہ اور اس کا رسول اور وہ اہل ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں)
آيت تطهير:
﴿… إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا﴾[30]
(بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہلبیت کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے)
آيت مودّت:
﴿ذَلِكَ الَّذِي يُبَشِّرُ اللَّهُ عِبَادَهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ قُلْ لا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى وَمَنْ يَقْتَرِفْ حَسَنَةً نَزِدْ لَهُ فِيهَا حُسْنًا إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ شَكُورٌ﴾[31]
(یہ وہ بات ہے جس کی اللہ اپنے ان بندوں کو خوشخبری دیتا ہے جو ایمان لاتے ہیں اور اعمال صالح بجا لاتے ہیں، کہہ دیجئے: میں اس (تبلیغ رسالت) پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا سوائے قریب ترین رشتہ داروں کی محبت کے اور جو کوئی نیکی کمائے ہم اس کے لیے اس نیکی میں اچھا اضافہ کرتے ہیں، اللہ یقینا بڑا بخشنے والا، قدردان ہے)
اور ان کے علاوہ دیگر آیات ۔۔۔ ۔
یہ حدیثی نصوص اور یہ قرآنی آیات امت کے سامنے اطاعت، مودت اور اتباع کا معیار پیش کر رہی ہیں۔
آئمه عليهم السلام كى عصمت
شیعہ امامیہ کے نزدیک امامت، کوئی اعزازی عہدہ نہیں ہے بلکہ یہ (جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں) ایک عظیم ذمہ داری ہے جسے وہ غیر معمولی ہستیاں اپنے کاندھوں پر اٹھاتی ہیں اور امامیہ کے نقطہ نظر سے اس طرح کی عظیم ذمہ داریاں پوری طرح سے اور کامل ترین طریقے سے صرف وہی امام ادا کریں گے جو عدل و کمال کی اعلیٰ ترین صفات سے مزیّن ہوں۔
اس رو سے امامیہ کا یہ مذہب ہے کہ امام کا امامت کے فرائض سنبھالنے سے پہلے اور بعد میں ہر گناہ، معصیت، خطا، لغزش اور سہو سے محفوظ ہونا ضروری ہے اگرچہ کچھ تفصیلات جیسے سہو کے حوالے سے ان میں اختلاف ہے، اسی طرح وہ عصمت پر بہت سے عقلی و نقلی دلائل پیش کرتے ہیں۔
آئمه اثنا عشر كون هيں؟
آئمہ، شیعہ امامیہ کے نزدیک (اس مسئلے میں امامیہ کا دیگر شیعہ فرقوں جیسے زیدیوں اور اسماعیلیوں سے اختلاف ہے) بارہ ہیں جنہیں یا نبی ﷺکی نص کے ذریعے یا ہر امام کی بعد والے امام پر نص کے ذریعے پہچانا جاتا ہے۔ انہوں نے حدیث کی کتب میں بہت سی ایسی احادیث و روایات ذکر کی ہیں جن سے مذکورہ بالا دو طریقوں سے اہل بیت نبی کے آئمہکی تعیین کا پتہ چلتا ہے۔
آئمہ بالترتیب یہ ہیں:
۱۔ امام علی بن ابی طالب (۴۰ھ)۔
۲۔ امام حسن بن علی المجتبی(۵۰ھ)۔
۳۔ امام حسین بن علی الشہید(۶۱ھ)۔
۴۔ امام علی بن حسین زین العابدین(۹۴ھ)۔
۵۔ امام محمد بن علی الباقر(۱۱۴ھ)۔
۶۔ امام جعفر بن محمد الصادق(۱۴۸ھ)۔
۷۔ امام موسی ٰ بن جعفر الکاظم(۱۸۳ھ)۔
۸۔ امام علی بن موسیٰ الرضا(۲۰۳ھ)۔
۹۔ امام محمد بن علی الجواد(۲۲۰ھ)۔
۱۰۔ امام علی بن محمد الہادی (۲۵۴ھ)۔
۱۱۔ امام حسن بن علی العسکری (۲۶۰ھ)۔
۱۲۔ امام محمد بن حسن المہدی؛ یہ امام غائب ہیں اور ابھی تک زندہ ہیں، آپ آخری زمانے میں ظاہر ہوں گے اور زمین کو ظلم و جور سے پر ہو جانے کے بعد عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔
ان آئمہکی حیات کی تفصیلات سے آگاہی کیلئے تاریخ، حدیث اور سیرت کی ان کتب کی طرف مراجعہ کیا جا سکتا ہے جو اس موضوع پر لکھی گئی ہیں اور ان کی عظیم شان، بلند مقام، باشرف و غنی تاریخ اور ہر موافق و مخالف کی جانب سے ان کے احترام پر دلیل ہیں۔
امام مهدی يا عقيدہ مهدويت و رجعت
امامیہ اس وقت بارہویں امام کی امامت سے منسلک ہیں، یہ وہی غائب امام ہیں جو آخری زمانے میں عالَم کی اصلاح فرمائیں گے اور تقریبا تمام مسلمان ان پر متفق ہیں اگرچہ ان کی ولادت کے ہونے یا نہ ہونے میں اختلاف ہے لیکن امامیہ کے نزدیک ان کی ولادت اور غیبت کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے اور یہ امر گزشتہ امتوں میں ہو چکا ہے جیسا کہ انہوں نے اپنی کلامی اور تاریخی ابحاث میں تفصیل سے اس پر روشنی ڈالی ہے۔
امامیہ کے نزدیک امام مہدی کے ظہور سے پہلے کچھ علامات ظاہر ہوں گی اور یہ کہ ان کے ظہور سے روئے زمین کا مستقبل تابناک اور شاندار ہو جائے گا اور یہ کہ بعض جو ایمان محض لائے یا جو کفر محض پر ڈٹے رہے وہ ان کی واپسی کے وقت دنیا میں پلٹائے جائیں گے جس کے بعد بہت بڑا معرکہ ہو گا اور اسے امامیہ کے عقیدے کی رو سے رجعت کہتے ہیں۔
اگرچہ علمائے امامیہ کا ایک چھوٹا گروہ رجعت کو امام مہدیکے ظہور اور اہل بیتکی حکومت کی واپسی سے ہی تعبیر کرتا ہے اور اس میں نیک یا بد مردوں کے اٹھائے جانے کو شامل نہیں کرتا کہ جن میں سے ایک علامہ سید ہاشم معروف حسنی عاملی ہیں۔
امام كا علم غيب اور ولايت تكوينى؛ اماميه كے درميان ايك اختلافى موضوع
امامیہ میں نظریہ امامت کی کچھ تفصیلات کے حوالے سے اختلافات ہیں جیسا کہ یہ ہر مذہب میں ہوتے ہیں۔ ان میں سے اہم ترین اختلافات کی بازگشت دو نکتوں کی طرف ہے:
۱۔ علم غيب
بعض علماء کے نزدیک اہل بیت ، علم غیب رکھتے ہیں؛ تعلیمِ الٰہی کے ذریعے نہ کہ اللہ سے مستقل و جدا ہو کر۔ اس لیے وہ مخلوق کے دلوں کا حال جانتے ہیں۔ اسی طرح انہیں مخلوق کے اعمال کا علم ہے جو باقاعدگی سے ان کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں اور انہیں ما کان (گزشتہ)، ما یکون (حال) اور قیامت تک کے حالات کا علم ہے۔ اسی طرح ان کے پاس تمام زبانوں اور تمام علوم کا بھی علم ہے۔
انہوں نے یہ علوم اللہ سبحانہ سے اخذ کیے ہیں اور وہ ان میں سے کسی چیز کے حوالے سے بھی اللہ تعالیٰ سے مستقل نہیں ہیں۔ جس طرح اللہ نے اپنے انبیاء کو علم عطا فرمایا اور انہیں غیب سے مطلع فرمایا وہی حال آئمہکا ہے نبی بنے بغیر۔
البتہ دیگر علماء اس رائے سے اختلاف کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جو علم غیب اللہ نے آئمہ کو عطا فرمایا ہے وہ اس قدر وسیع نہیں ہے بلکہ ان کے پاس اس سارے میں سے بعض اور قلیل کا علم ہے۔
۲۔ ولايت تكوينى:
اس سے مقصود یہ ہے کہ اہل بیت، اپنی اعلیٰ و ارفع ارواح کے ذریعے اس عالم پر ولایت و تسلط کی صلاحیت رکھتے ہیں، وہ اس میں تصرف کرتے ہیں اور اس کے امور کو اللہ سبحانہ کے امر اور اس کی عطا کردہ قدرت سے چلاتے ہیں لیکن اس میں وہ اللہ اور اس کی قدرت سے لمحہ بھر کیلئے بھی جدا نہیں ہیں اور یہ کہ ان کی زندگی؛ کرامات اور عالم ہستی میں تکوینی تصرفات سے مملو و پُر ہے کہ جس کا سبب ان کے نفوس و ارواح کی قوت اور کمال وجودی کے اعلیٰ مراتب پر فائز ہونا ہے۔ لہٰذا اہل بیتحضرت محمد ﷺکے بعد روئے زمین پر انسان کامل ہیں۔
البتہ بعض علمائے امامیہ ولایت تکوینی کو نہیں مانتے اور یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی ضرورت کے پیش نظر مختصر وقت کیلئے اہل بیتکو بعض اوقات کسی مقام پر کائنات میں تاثیر کی قدرت عطا کرتا ہے لیکن وہ نہ ہی کائنات کو چلا رہے ہیں اور نہ ہی مخلوق کا حساب و کتاب کر رہے ہیں اور نہ ہی ان کی زندگیاں معجزوں اور کرامتوں کی بنیاد پر بسر ہوئی ہیں بلکہ غالباً فطری حالات کے تحت ہی گزرتی رہی ہیں۔
آج امامیہ اور ان کے علماء کی ایک جماعت ان دونوں نظریوں (علم غیب اور ولایت تکوینی) اور ان کے مخصوص آثار کا انکار کرنے والوں کی تائید کرتی ہے اور ان موضوعات کی تفصیل شیعہ کلامی کتب میں دیکھی جا سکتی ہے۔
بہرصورت، امامت، نبوت محمدی ﷺ کے بعد ہے اور تمام وہ خصوصیات جنہیں شیعہ امامیہ اپنے آئمہکیلئے ثابت کرتے ہیں وہ ان کے نزدیک پہلے رسول اللہ ﷺکیلئے پوری طرح سے ثابت ہیں۔ لہٰذا جب وہ یہ کہتے ہیں کہ امام علم غیب رکھتا ہے تو ان کا یہ عقیدہ بھی ہوتا ہے کہ نبی ﷺبھی اکمل و کامل صورت میں غیب کا علم رکھتے ہیں۔ پس وہ اللہ سبحانہ کی کامل ترین اور مقرب ترین مخلوق ہیں۔
چوتها محور: معاد و قيامت
مذہب امامیہ قیامت کے دن پر قطعی و حتمی ایمان رکھتا ہے اور اسے ایک عقلی ضرورت اور اللہ کا پکا وعدہ قرار دیتا ہے پس وہ عظیم ترین عدل کا دن ہے اور بلند ترین قدرت الٰہی کا مظہر ہے۔ ہر انسان کو قیامت کے دن مبعوث کیا جائے گا تاکہ اللہ سبحانہ کے سامنے اس کا حساب کتاب ہو سکے۔۔۔ اسے روح و بدن کے ساتھ زندہ کیا جائے گا اور ان کے یہاں عقیدہ تناسخ کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ جس کے بعض ادیان و مذاہب قائل ہیں۔
علمائے امامیہ کے نزدیک عالم قبر موجود ہے یا تمام انسانوں کیلئے یا صرف ان کیلئے جو خالص ایمان رکھتے تھے جیسے شہدا اور ان لوگوں کیلئے جو کفرِ محض رکھتے تھے جیسے فرعون اور اس کی قوم۔
البتہ عالم قبر یا برزخ کے حوالے سے دیگر مسلمانوں کا باہمی اختلاف معروف ہے یہاں تک کہ بعض مسلمانوں کی طرف اس کے انکار کی نسبت دی گئی ہے جیسے ضرار بن عمرو۔
اسی طرح امامیہ (دیگر مسلمانوں کی طرح) نہ صرف سورہ تکویر، انفطار،انشقاق، زلزال اور قارعۃ میں بیان ہونے والے روز قیامت کے مناظر پر ایمان رکھتے ہیں بلکہ قیامت کے رونما ہونے سے پہلے واقع ہونے والی اس کی علامات اور نشانیوں پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔ قیامت کی نشانیوں میں سے “دخان مبین”، “زمین سے دابّہ کا نکلنا” اور دیگر نشانیاں بھی ہیں جنہیں علماء نے ذکر کیا ہے۔ اگرچہ ان کی تفصیلات میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
امامیہ عقائد کی رو سے قیامت میں پہلے صور کو پھونکنے کا مرحلہ آئے گا کہ جس میں ساری مخلوق مر جائے گی پھر دوسرا مرحلہ ہو گا جب سب زندہ کیے جائیں گے اور زندہ ہونے کے بعد لوگوں کو ان کے اعمال دکھائے جائیں گے، پھر ہر چھوٹے بڑے عمل پر ان کا حساب وکتاب ہو گا اور ان پر انبیاء، ملائکہ، زمین، بدن اور جلد جیسے گواہوں کی شہادتیں قائم کی جائیں گی۔
حساب کے بعد، بہت سے علمائے امامیہ کا یہ عقیدہ ہے کہ جہنم پر ایک پل ہے جس کے اوپر سے لوگ گزریں گے، وہ تلوار سے زیادہ تیز، بال سے زیادہ باریک ہو گا۔ جو کامیاب ہیں وہ اس پر سے گزر جائیں گے ورنہ جہنم کی گہرائیوں میں گر پڑیں گے۔
اسی طرح علمائے امامیہ، حجاب اور اعراف پر ایمان رکھتے ہیں کہ وہاں کچھ مرد کھڑے ہوں گے جو اہل بیتسے منقول صریح روایات کے مطابق انبیاء و اوصیاء ہیں۔
مزید برآں امامیہ کی روایات کہتی ہیں کہ حساب کے بعد رسول ﷺلواء الحمد اٹھائیں گے اور داخل بہشت ہوں گے پھر ان کے پیچھے پیچھے مومنین بھی جنت میں داخل ہو جائیں گے۔
قیامت کے دن کا بدلہ یا جنت ہے یا جہنم ہے لیکن جہنم واصل ہونے سے پہلے انسان کو شفاعت نصیب ہونے کا احتمال موجود ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ کی بعض مقرب شخصیات، اللہ کے مقرر کردہ اور پسند کردہ قواعدِ شفاعت کے تحت کچھ اہل اسلام کی شفاعت کریں گی اور محمد و آل محمدان شفاعت کرنے والوں میں سے سرفہرست ہیں۔
لہٰذا دنیا میں اہل شفاعت سے شفاعت طلب کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے جیسے یعقوب کے بیٹوں نے اپنے والد سے شفاعت طلب کی تھی چنانچہ ارشاد ہے: ﴿قَالُوا يَا أَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا إِنَّا كُنَّا خَاطِئِينَ ۞ قَالَ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ﴾[32]
(بیٹوں نے کہا: اے ابّا! ہمارے گناہوں کی مغفرت کے لیے دعا کیجیے۔ بیشک ہم خطاکار تھے۔ (یعقوب نے) کہا: عنقریب میں تمہارے لیے اپنے رب سے مغفرت کی دعا کروں گا؛ وہ یقینا بڑا بخشنے والا،مہربان ہے)
شفاعت، جنگل کے قانون اور اقربا پروری کا نام نہیں ہے بلکہ اس کے مخصوص قوانین ہیں اور یہ اس وقت تک واقع نہیں ہوتی جب تک اللہ تعالیٰ کی مورد رضا واقع نہ ہو۔ لہٰذا وہی شافعین کو قیامت کے دن رتبہ و مقام عطا کرے گا۔
قیامت کے دن اللہ کے حساب میں عدل ہے اور ذرہ بھر ظلم نہیں ہو گا۔ وہاں پر انسان کے ہر چھوٹے عمل کا حساب لیا جائے گا۔ اگر اس نے اللہ کی بارگاہ میں توبہ کر لی تو اللہ اس کی بدی کو مٹا دے گا اور قیامت کے دن شافعین کی شفاعت یا رحمتالٰہی شامل حال ہونے کی صورت میں بھی ایسا ہی ہو گا۔
خدا انتہائی معاف کرنے والا ہے۔ وہ کسی بھی گناہ کو توبہ کے بعدمعاف کر دیتا ہے۔ اسی طرح ممکن ہے کہ وہ توبہ کے بغیر ہی ماسوائے شرک، سارے گناہ معاف کر دے جیسا کہ قرآن کریم کی اس پر نص ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرَى إِثْمًا عَظِيمًا﴾[33]
(خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے اور اس کے سوا اور گناہ جس کو چاہے معاف کردے اور جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بہت بڑا گناہ کیا ہے)
خدائے بزرگ و برتر فرماتا ہے: ﴿قُلْ يا عِبادِيَ الَّذينَ أَسْرَفُوا عَلى أَنْفُسِهِمْ لا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَميعاً إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحيمُ ﴾[34]
(کہہ دیجئے:اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، یقینا اللہ تمام گناہوں کو معاف فرماتا ہے، وہ یقینا بڑا معاف کرنے والا، مہربان ہے)
جب یہ سب (توبہ، شفاعت اور رحمت) واقع نہ ہوں تو بندہ جہنم کا مستحق ٹھہرتا ہے لیکن ہمیشہ کی جہنم، صرف مشرکین و کافرین کیلئے ہے جبکہ موحّد مسلمانوں کیلئے ہمیشہ کا عذاب نہیں ہے (اور انہیں کبھی نہ کبھی جہنم سے چھٹکارا نصیب ہو جائے گا)
یہ مذہب امامیہ کے اہم اور مشہور و مقبول عقائد کا انتہائی مختصر خلاصہ ہے۔ اس حوالے سے فرعی تفصیلات بھی ہیں جن میں بحث و نزاع ہے؛ کبھی خود امامیہ کے اندر اور بعض اوقات دیگر مذاہب کے ساتھ کہ جن میں طوالت کلام کی ضرورت نہیں ہے۔
شيعه اماميه كے نزديك شريعت كى خصوصيات
امامیہ (دیگر مسلمین کی طرح) اسلام کی کامل شریعت پر ایمان رکھتے ہیں اور یہ کہ یہ شریعت بشر کی حیات کیلئے وضع کردہ بہترین نظام ہے اور یہ کہ انسان اگر اسلامی شریعت کی راہ ہدایت پر گامزن ہو جائے تو اس کے امور سدھر سکتے ہیں اور یہ کہ مسلمانوں کی حالت زار ابتر ہونے کا ایک اہم ترین سبب ان کا اپنے دین اور شریعتِ الٰہی سے دوری اختیار کرنا ہے۔
امامیہ کے شریعت پر اعتقاد کا مطلب، اس کے فقہی ابواب پر اعتقاد رکھنا ہے جو تمام مسلمانوں کے نزدیک معروف ہیں؛ یعنی وضو، غسل، تیمم، طہارات و نجاسات، نماز و احکام نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، اعتکاف ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر، خمس اور جہاد ۔۔۔ ۔
اسی طرح وہ بيع، إجارہ، نكاح، طلاق، لعان، عتق، أيمان، نذور، عهود، كفارات، إقالہ، شفعہ، مضاربہ، مزارعہ، مساقاہ، سبق، رمايہ، شركہ، وديعہ، عاريہ، لقطہ، غصب، إحياء الموات والمشتركات، دين، قرض، رهن، حجر، ضمان، صلح، هبہ، ظهار، إيلاء، إرث، وصيہ، وقف، صدقہ، جعالہ، حوالہ، كفالہ، وكالہ، حدود، قصاص، تعزيرات، ديات، قضاء، شهادات، إقرار، صيد، ،ذباحہ، اطعمہ و اشربہ، ستر و نظر، زن و مرد کے تعلقات، ولايت وغيرہ؛ کے تمام احکام پر بھی یقین رکھتے ہیں۔
لہٰذا جو شخص اس حوالے سے ان کی کتب کی طرف رجوع کرے تو وہ ان میں اور باقی مسلمانوں کی کتابوں میں کوئی اہم اختلاف نہیں پائے گا بلکہ یہ ایک ہی اسلوب پر ہیں۔
اماميه كے نزديك اجتهاد كے مصادر
امامیہ شرعی اجتہاد کے حوالے سے قرآن کریم، سنت نبی، سنت اہل بیت جو قرآن و سنت نبی کی شارح ہے اور عقل پر اعتماد کرتے ہیں اگرچہ عقل کے بارے میں ان کے درمیان اختلاف ہے۔ تاہم اجماع کو وہ سنت کا کاشف سمجھتے ہیں نہ کہ اس کے مقابلے میں دلیل۔
شیعہ امامیہ؛ قیاس، استحسان اور رائے پر یقین نہیں رکھتے تاہم ان کے اپنے درمیان بہت سے اصولی و فقہی اختلافات ہیں کہ جن میں سے اہم اور زیادہ مشہور اخباریوں اور اصولیوں کا اختلاف ہے۔ یہی حال مسلمانوں کے دیگر فقہی مکاتب کا بھی ہے۔
مشہور امامیہ بعض معروف احکام کی وجہ سے اکثر اسلامی فقہی مکاتب سے ممتاز ہیں؛ جن میں سے ہم بعض کا ذکر کر رہے ہیں:
۱۔ فقہی مسائل میں زندہ، اعلم اور جامع الشرائط مجتہد کی تقلیدکرنا؛
۲۔ وضو میں پاؤں دھونے کی بجائے ان کا مسح کرنا؛
۳۔ ماکول(کھائی جانے والی) و ملبوس(پہنے جانے والی) چیزوں پر سجدہ کو صحیح نہ سمجھنا؛
۴۔ نماز ظہر و عصر اور مغرب و عشا کو اکٹھے ادا کرنے کا جواز، خواہ ہمیشہ اور اپنے اختیار سے ضرورت و سفر کے بغیر ایسا کرے ؛
۵۔ موقت نکاح (متعہ)؛
۶۔ تمام نمازوں کے قیام میں تکتف نہ کرنا (ہاتھ نہ باندھنا)؛
۷۔ نوافل میں نماز جماعت کا عدم جواز؛
۸۔ مکاسب(کسب و کار) کی منفعت میں خمس کا ثبوت اور خمس کو صرف جنگ کے مال غنیمت یا معدنیات سے مخصوص نہ سمجھنا؛
۹۔ نماز میں فاتحہ کے بعد بقصد ورود (حکم خدا و رسول سمجھ کر) آمین کہنے کو حرام سمجھنا؛
۱۰۔ نکاح پر گواہ بنانے کو واجب نہ سمجھنا اور طلاق پر گواہ بنانے کو واجب سمجھنا؛
۱۱۔ ایک نشست میں تین طلاقیں واقع نہ ہونا بلکہ ایک طلاق واقع ہو گی؛
۱۲۔ حج میں تمتّع کا ثابت ہونا؛
۱۳۔ میراث میں عول و تعصیب کا انکار؛
۱۴۔ آذان و اقامت میں (حيّ على خير العمل) کہنا اور (الصلاة خير من النوم) نہ کہنا؛
ان کے علاوہ اور فقہی مثالیں بھی ہیں جن کے بارے میں بات کر کے ہم اپنی بات کو طول نہیں دینا چاہتے۔
۞۞۞۞۞
پهر، اختلاف كيوں هے؟
گزشتہ مطالب سے ظاہر ہوتا ہے کہ مذہب شیعہ امامیہ ایک اسلامی مذہب ہے جو تمام اسلامی عقائد اور الٰہی شریعت پر ایمان رکھتا ہے۔ پس تمام اصول عقائد اور اصول شرائع میں ان کا جمہور مسلمین کے ساتھ کوئی قابل ذکر فرق نہیں ہے۔ اگر امامت کے مسئلے میں اختلاف ہے تو ایسا اختلاف خود جمہور مسلمین کے اندر بھی ہے۔
سوال: کیوں چار فقہی مذاہب باہمی مسائل کو حل کر چکے ہیں لیکن ان کے فقہ جعفریہ کے ساتھ تعلقات ابھی تک کشیدہ اور تشویشناک ہیں؟!
کیوں جمہور مسلمین (ماتریدیہ، معتزلہ، اشاعرہ ۔۔۔) نے (سخت اختلافات کے باوجود) ایک دوسرے کے متنوّع عقائد کو قبول کر لیا ہے لیکن مذہب امامیہ کے ساتھ ان کے اختلاف کی صورتحال الگ ہے اور ابھی تک اس پر منفی رنگ ہے؟!
چاروں فقہی مذاہب میں دور و نزدیک کے سینکڑوں اختلافات اور سینکڑوں نادر فتاویٰ موجود ہیں جیسا کہ اس جماعت یا اُس جماعت کے حمایتی اس کا اعتراف کرتے ہیں۔۔۔۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ امامیہ کے ساتھ بعض فقہی اختلافات، سنی عقل میں ایک تشویشناک تصور پیدا کرنے کا باعث بنے ہیں لیکن خود ان مذاہب کے اتنے سارے باہمی اختلافات اس حد تک تشویش کا باعث نہیں ہیں؟!
آج (سلفیوں کے دوسروں سے تعلقات سے قطع نظر) معتزلہ، اشاعرہ، ماتریدیہ اور اہل حدیث آپس کے شدید اختلافات اور ایک دوسرے پر تنقید کے باوجود پرامن بقائے باہمی رکھتے ہیں بلکہ یہ سب خود کو ایک مذہب کے دائرے میں سمجھتے ہیں اور وہ ہے اہل سنت و الجماعت کا مذہب۔ تو کیوں امامیہ و اہل سنت کے روابط اس قسم کے نہیں ہیں کہ اختلاف کے باوجود انہیں ایک پلیٹ فارم پر جمع اور متحد کیا جا سکے؟! کیا معاملہ ہے؟! یہ احساس کیوں ہے کہ شیعہ امامیہ (حالانکہ وہ دنیا بھر میں ۲۰۰ ملین سے زیادہ ہیں) گویا امت مسلمہ سے خارج ہیں!
کچھ ایسے پریشان کن عوامل ہیں جن کا خاتمہ ضروری ہے تاکہ دوسروں کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے کی سوچ کو نظر انداز کر کے وحدت کے زیر سایہ اپنا تشخص برقرار رکھا جا سکے اور الفت کے ماحول میں رہ کر اختلاف رائے بھی کیا جا سکے۔ ان پریشان کن اور خطرناک عوامل کا کھوج لگانا، اس گتھی کو سلجھانے کی کنجی ہے۔
یہ عوامل کون سے ہیں؟ اور ان میں سے نمایاں ترین کون سے ہیں؟
اب ہم ان عوامل کا سراغ لگانے کی کوشش کریں گے پھر انشاء اللہ ایسے قواعد و ضوابط کو وضع کیا جائے گا کہ جن کے تحت اختلافات کو کنٹرول کیا جا سکے۔
حاليه اختلاف اماميه اور کچه مسلمانوں كا نه كه سب كا؛
اس امر کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ ہمیں عصر حاضر میں امامیہ اور دیگر اسلامی مذاہب کے باہمی تعلقات کے حوالے سے کسی حقیقی بحران کا سامنا نہیں ہے اور ایسا کہنا درست نہیں ہے کیونکہ شیعہ امامیہ یمن وغیرہ میں زیدیوں کے ساتھ، عمان وغیرہ میں اباضیوں کے ساتھ، برصغیر پاک و ہند اور سعودیہ وغیرہ میں اسماعیلیوں کے ساتھ اور پاکستان، بھارت، شمالی افریقہ میں بہت سے صوفیوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتے ہیں۔
مسئلہ جمہور اہل سنت کے ساتھ ہے بمعہ فقہی و کلامی مذاہب اور بالخصوص “سلفی مکتب” کے نام سے معروف گروہ کے ساتھ۔
۞۞۞۞۞
طرفین کے خدشات اور حل طلب مسائل
مقدّمه
ہم سب اس امر سے واقف ہیں کہ قرون ہجریہ کے اوائل سے ہی سنی و شیعہ کے بہت زیادہ باہمی اختلافات چلے آ رہے ہیں مگر یہ فکری اختلاف کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ذاتی نوعیت کی رکاوٹیں ہیں جو باہمی روابط کی راہ میں دیوار حائل کر دیتی ہیں۔
دوطرفہ تعلقات کی راہ میں ایسی رسموں، رویّوں اور قدروں کا وجود جن کی بازگشت بعض اوقات دینی و مذہبی اجتہاد کی طرف ہوتی ہو؛ انتہائی خطرناک ہے۔ ان امور کے اس انداز اور اس سطح پر ہوتے ہوئے ایک دوسرے کے قریب ہونا اور مذہبی سلامتی کو قائم کرنا؛ خارج از امکان ہے، جیسے:
۱۔ بعض مسلمانوں کی طرف سے شیعہ امامیہ کی تکفیر کرنا اور شرک و توسل کے مسائل؛ (کسی دوسرے مذہب کو تسلیم نہ کرنا)
۲۔ صحابہ پر لعنت بھیجنا؛
۳۔ امہات المؤمنین کی شان میں گستاخی اور توہین؛
۴۔ تقیہ؛
۵۔ قرآن کریم کی تحریف اور سنت نبوی کا انکار؛
۶۔ عاشورا اور مذہبی رسومات و شعائر؛
۷۔ نکاح متعہ؛
۸۔ حب الوطنی اور تشیع کی لہر؛
۹۔ مذہبی آزادی پر پابندی؛
اسی طرح کچھ دوسرے معاملات بھی ہیں جن سے بڑے بحران جنم لیتے ہیں اور ہمارے تعلقات کی راہ میں حائل ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا ایک نئے دور کی بنیاد رکھنے کیلئے انہیں حل کرنا اور ان کے حوالے سے ایک موقف پیش کرنا ضروری ہے۔
۱۔ تكفير اور شرک كى تهمت كا رويه
یہ مسئلہ ان پیچیدہ ترین مشکلات میں سے ہے جو مسلمانوں کو ایک دوسرے کے آمنے سامنے لاکھڑا کرتی ہیں کیونکہ اہل سنت کے بعض مذہبی فرقے (جمہور سلفی) امامیہ کے قبور کے بارے میں نقطہ نظر اور آئمہ اہل بیتکے ساتھ خاص تعلق کی وجہ سے انہیں کافر و مشرک قرار دیتے ہیں۔ ان فرقوں کے اس اصرار سے خود اہل سنت کی بڑی تعداد بھی محفوظ نہیں ہے بالخصوص صوفی اور روحانی جماعتیں۔
امامیہ اس موضوع پر اپنا دفاع پیش کر چکے ہیں اور اپنے موقف کی تشریح بھی کر چکے ہیں۔ یہاں پر ہم اس موضوع کی علمی تشریح نہیں کر رہے۔ ہم اس حوالے سے صرف اپنی حتمی رائے پیش کریں گے۔
ہماری رائے یہ ہے کہ تکفیر کے رویے کو ترک کرنا ضروری ہے، تمام مسائل میں پوری طرح سے نظر ثانی کی جائے، ان باتوں یا اعمال کے نتیجے میں کسی مذہب پر حکم نہ لگایا جائے کہ جن کاکسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والوں کا مٹھی بھر گروہ قائل ہے یا انجام دیتا ہے، جو اعمال و افعال دوسرے انجام دیتے ہیں؛ ان کی اچھی تشریح پیش کرنے کا موقع دیا جائے اور انہیں کسی ایسی تفسیر میں منحصر کرنے سے اجتناب کیا جائے جس میں احتمال ثانی کی گنجائش نہ رہے۔
تكفير كى سنگینى ميں اضافه
اسی طرح ہماری گزارش ہے کہ تکفیر کی سنگینی میں اضافہ کیا جائے اور اسے ایک انتہائی بھاری کام قرار دیا جائے کہ سخت جانفشانی کے بغیر اس کا اقدام کرنا روا نہ ہو اور اس کی ذمہ داری صرف بڑے بڑے فقہا ءو مجتہدین پر ہو۔ اسی طرح ان کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ کسی بھی شخص کو فتویٰ صادر کرنے کی اجازت دینے میں بہت سختی سے کام لیں کیونکہ ایسے فتووں کی بھرمار سے انتشار و افتراق کا ماحول پیدا ہوتا رہا ہے اور ہوتا رہے گا؛ جو بغیر کسی نگران و محتسب کے دوسروں کی درجہ بندی اور ان کے اسلام یا کفر کے فیصلے کے حوالے سے علمی اہلیّت سے تہی، اپنوں یا پرایوں سے صادر ہوتے ہیں۔
اسی طرح ہم بعض شیعہ امامیہ سے بھی گزارش کرتے ہیں کہ وہ دیگر مذاہب کی تکفیر (خواہ ضمنی ہو) کو چھوڑ دیں۔ ہم نے شیعہ اور اہل سنت کے ہاں بہت سی ایسی اجتہادی آرا کا مطالعہ کیا ہے جن میں مسلمان مذاہب کو ظاہری اور حقیقی معنوں میں مسلمان قرار دیا گیا ہے اور مناسب یہی ہے کہ ان اجتہادات کو سامنے لایا جائے اور قومی ثقافت کو ان کے تابع کیا جائے ۔ تاہم علمی محافل و مراکز میں مختلف اجتہادات اور آزاد اندیشی کا سلسلہ چلتا رہے گا لیکن انہیں رائے عامہ پر ایسے انداز سے مسلط نہیں کیا جا سکتا کہ مسلمانوں کے باہمی تعلقات میں کسی قسم کی بحرانی کیفیت پیدا ہو سکے۔
اماميه كو بعض اعمال كى اصلاح كرنے كى دعوت
آج امامیہ کی تکفیر کرنے والوں کی اکثریت ان غیر صائب تصورات کا حوالہ دیتی ہے جو آئمہ اہل بیتیا دیگر بزرگوں کے مزارات میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ لہٰذا ہماری معتبر شیعہ علماء سے گزارش ہے کہ ایسے نادرست اعمال پر تنقید کریں جو بعض لوگوں کی طرف سے ان مقامات پر بجا لائے جاتے ہیں اور جن سے دوسروں کے سامنے مذہبِ امامیہ کا چہرہ خراب ہوتا ہے اور تکفیری فکر کو اپنے وجود کا جواز پیش کرنے کے لیے وافرمواد مل جاتا ہے۔
ہمارے نزدیک ایسے کاموں سے اجتناب کرنا چاہئیے جو غیر ضروری ہیں اور نہ ہی کوئی ایسی صحیح نصوص موجود ہیں جو انہیں لازم قرار دیتی ہوں یا ان کی دعوت دیتی ہوں۔ جیسے ضریحوں کے سامنے سجدہ، اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر ساری توجہ صاحبِ ضریح پر مرکوز کر کے انہیں پکارنے کی عادت، غیر اللہ سے مناجات کی عادت، جیسے ہر قیام و قعود کے وقت یا علی کہنا[35]، یا بعض غیر ثابت دعائیں پڑھنا جیسے یہ دعا: (يا محمد يا علي، يا عليّ يا محمّد، انصراني فإنّكما ناصراى، واكفياني فإنّكما كافياى)[36]۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ قرآنی دعاؤں کی طرف رجوع کیا جائے اور ان ماثور و منقول دعاؤں کو پڑھا جائے جو صحیفہ سجادیہ میں وارد ہوئی ہیں اور جو بہت بڑی تعداد میں شیعہ و سنی مصادر کے اندر مساوی طور پر نبی و اہل بیتسے منقول ہوئی ہیں۔
انبياء و اولياء سے توسّل كے بارے ميں ہمارا تصوّر
ہم یہاں پر توسل کے بارے میں اپنا نظریہ پیش کر رہے ہیں۔ ہم توسل بمعنی اہل بیتسے دعا کرنا یا اوروں سے دعا کرنا کہ گویا وہ لوگوں کی حاجات کو پورا کرتے ہوں؛ سے دستبردار ہونے کی گزارش کرتے ہیں اور ہماری نظر میں یہ ایک ضعیف رائے ہے جس پر بہت ہی قلیل نصوص کی روشنی میں اجتہاد کیا گیا ہے اور ہمارے نزدیک یہ دعا کے اس عمومی طریقہ کار سے ہم آہنگ نہیں ہے جسے اہل بیتچھوڑ کر گئے ہیں۔
البتہ ہم توسل بمعنی اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا اور یہ کہ وہ (بحق مُحمد وآل مُحمد وبحق الأنبياء والأولياء وبحق الصّديقين والشّهداء والصّالحين وحَسُنَ أولئك رفيقاً) ہماری دعا کو قبول کرے؛ پر ایمان رکھتے ہیں اور ہمارے نزدیک اس میں کسی قسم کے شرک و انحراف کا شائبہ نہیں ہے بلکہ یہ اللہ کی توحید ہے اور اس کی بارگاہ میں انبیاء و صالحین کی بزرگی و عزت و شرافت کا واسطہ دے کر دعا کرنا ہے۔
دوسرے كے موقف كو سمجهیں؛ اهل سنّت سے اپيل
یہ تھی ہماری اہل تشیع سے اپیل۔ تاہم اہل سنت کو ہم یہ دعوت دیتے ہیں کہ وہ ضریحوں کے پاس ہونے والی چیزوں کو سمجھیں، معاملات کو ایک دوسرے سے جدا کریں اور ان مبالغہ آمیز باتوں پر کان نہ دھریں جو تشیع کو معاذ اللہ، شرک باللہ اور کفر باللہ کے عنوان سے پیش کرنے کی سعی و کوشش ہے۔ شیعہ مسلم اورموحد ہیں۔ جب وہ اہل بیت کیلئے اس عالَم میں کسی قسم کی منقبت یا مقام کی بات کرتے ہیں تو یہ ان پر اللہ کی ایک نعمت ہے اور اس چیز میں وہ اس سے مستقل و جدا نہیں ہیں۔ پس وہ ذوات مقدّسہ سورج کی مانند ہیں جو زمین کو حیات عطا کرتا ہے۔ اس کا معنی یہی ہے کہ وہ اللہ کے اذن سے ایسا کرتا ہے؛ نہ وہ معبود ہے کہ جس کی اللہ کو چھوڑ کر پوجا کی جاتی ہو اور نہ ہی وہ اپنے اس کام میں اللہ سے مستقل و علیٰحدہ ہے اور خود اللہ نے ہی اسے یہ فرض سونپا ہے اور اسے یہ شرف عطا کیا ہے۔
ولايت تكوينى اور شرک كا مسئله؛ مطالب كى درست تصوير كشى
یہ وہ بات ہے کہ جو سب امامیہ حتی ولایت تکوینی یا امام کے علم غیب کے قائلین (اگرچہ ہم ان سے متفق نہیں ہیں) بھی کہتے ہیں کہ وہ کسی کی الوہیت کا ارادہ نہیں کرتے ہیں، اسی طرح ان کے نظریے کے مضمون میں کسی کی الوہیت کا ذکر نہیں ہے اور نہ ہی اس سے یہ سمجھ آتا ہے کہ اللہ میں کوئی نقص و کمی ہے جس کی وجہ سے اللہ، اہل بیت کا محتاج ہے کہ اب وہ آ کر اس کائنات کے کسی نقص کو برطرف کریں، نہ یہ کہ وہ اللہ کی مدد کرتے ہوں کہ جو کسی کی مدد کا محتاج نہیں ہے، نہ یہ کہ اس نے کائنات کے امور کو ان کے سپرد کر کے مخلوق کو چھوڑ دیا ہو کہ اب مثال کے طور پر اہل بیتان کے امور کو چلائیں۔۔۔ یہ کیسے ممکن ہے جبکہ یہ افکار شیعہ کے تمام مذاہب کی رو سے غلو میں شمار ہوتے ہیں اور بہت سے امامیہ فقہاء نے غلات کے کفر اور ان کی نجاست کا فتویٰ دیا ہے۔
زیادہ سے زیادہ بات یہ ہے کہ ان کے نزدیک اہل بیتکو اللہ نے علم غیب عطا کیا ہے مگر وہ اللہ کے بغیر ذرہ بھر علم غیب کو جاننے پر قادر نہیں ہیں اور یہ کہ اگر کائنات کا تکوینی اختیار و اقتدار ان کے پاس ہے تو یہ اللہ کی عطا کردہ طاقت سے ہے۔ اس کی مثال بعینہ اس طرح ہے کہ جیسے اللہ نے مجھے یہ طاقت دی ہے کہ میں اس قلم کو استعمال کروں اور کسی سفید کاغذ پر لکھ کر اس میں تصرف کروں (اور قلم کا اثر کاغذ پر ظاہر کر دوں)۔
پس اہل بیتنے اس کمال کو اللہ سے لیا ہے، وہ اس کے حدوث و استمرار میں اللہ کے محتاج ہیں اور اللہ، اگر لمحہ بھر کیلئے بھی ان کے سلسلہ تعلیم یا عطائے ولایت کو ترک کر دے تو وہ ہرگز اسے پا نہیں سکتے۔ پس ہر چیز اللہ کی طرف سے ہے، اس کی ہے اور اسی کی طرف لوٹنے والی ہے۔ لہٰذا یہاں پر کوئی بات تکفیر کی موجب نہیں ہے حتی اگر ہم اس عقیدے کے اس اجتہاد کو غلط بھی قرار دیں۔ پس خطا کی نسبت (خواہ عقیدے میں ہی کیوں نہ ہو) ایک چیز ہے اور تکفیر و شرک کی تہمت ایک دوسری چیز۔
تربتِ حسينى پر سجدے اور ضريحوں كى زيارت كو سمجهنے كى دعوت
تربت حسینی پر سجدے کا مسئلہ اسی باب سے ہے۔ اس کا مطلب “تربت” کی عبادت کرنا نہیں ہے اور کوئی بھی شیعہ ایسا نہیں کہے گا بلکہ اس میں زیادہ سے زیادہ یہ چیز ہے کہ مٹی پر سجدہ کرنا افضل ہے اور سید الشہدا امام حسین بن علی بن ابی طالبکی قبر کی مٹی کو یہ شرف حاصل ہے کہ یہ آپ کے طاہر بدن کو لیے ہوئے ہے۔ اس لیے امامیہ تربتِ حسینی پر سجدہ کرنے کو افضل سمجھتے ہیں نہ یہ کہ وہ معاذ اللہ اس مٹی کی عبادت کرتے ہوں۔
پس جس طرح قبلہ شریف کی طرف رخ کرنا؛ اس کی عبادت نہیں ہے اسی طرح اس مٹی پر سجدہ کرنے کی کیفیت ہے۔ یہ معلوم رہے کہ شیعہ امامیہ کربلا یا ضریح کی تربت پر سجدہ کرنے کو واجب قرار نہیں دیتے اور اسے کبھی بھی ایک لازمی امر نہیں سمجھتے۔
یہی کیفیت اہل بیت نبی کے مزارات کی زیارت کی ہے۔ زیارت،(مزارات کی) عبادت کے قصد سے نہیں ہے، یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے مکہ و مدینہ کی زیارت اس قصد سے نہیں ہوتی بلکہ یہ امامیہ کے نزدیک اللہ کی اطاعت کے قصد سے کی جاتی ہے کہ اس نے اولیاء اللہ اور صلحا کے ساتھ جڑنے کا حکم دیا ہے۔
تكفير كى مصيبت اور كلام كے لازم پر محاسبه
تکفیر کا مسئلہ یہ ہے کہ کسی انسان کی بات کے لازمے پر کفر کا حکم لگا دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص ایک خاص بات کرتا ہے تو ہم اس پر کفر کا حکم لگا دیتے ہیں کیونکہ ہمارے نزدیک یہ بات ایک دوسری بات کی موجب ہے کہ جس کے اندر کفر پوشیدہ ہے حالانکہ یہ ضروری نہیں ہے کہ دوسرے نے کفر کا ارتکاب کیا ہو۔ شاید اس کے نزدیک پہلا تصور، دوسرے کا موجب نہ ہو۔ یہ مسلمانوں کی باہمی تکفیر کے حوالے سے ایک بڑی مصیبت ہے۔
مسلمین، مذاہب اور مفکرین کے باہمی رویوں میں سب سے بڑی خطا ہر ایک کی طرف سے دوسرے پر اس کے مذہب کے لوازم کا بوجھ ڈالنا ہے۔۔۔ اور گویا دوسرا ان لوازم پر اعتقاد رکھتا ہے۔۔ اس میں تکفیر اور حکمِ ارتداد کا ایک منبع پوشیدہ ہے۔
سنی شیعہ سے کہتا ہے: تو رسول ﷺکا دشمن ہے کیونکہ جب تو صحابہ کا واسطہ حذف کر کے ہمارا ان(رسول) سے رابطہ منقطع کرتا ہے تو اس سے لازم یہی آتا ہے ۔۔۔۔ اور شیعہ کہتا ہے: یہ لازمہ درست نہیں ہے کیونکہ میرے پاس ایک دوسرا واسطہ موجود ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ صحابہ کے بارے میں میرے موقف سے وہ چیز(رسول سے دشمنی) لازم آتی ہو جو تو سمجھ رہا ہے ۔۔۔ وعلی ھذا القیاس۔
تكفير كا قضيه، امت كے بڑے علماء ميں منحصر كرنے كی ضرورت
تکفیر کے فروغ کا ایک سبب یہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے علماء بلکہ بعض عام لوگ جو دینی علوم میں ماہر نہیں ہیں؛ وہ تکفیر، ارتداد، لوگوں کے باہمی امتیازات اور دوسروں کے ایمان کی سطح متعین کرنے جیسے امور کو سنبھالے ہوئے ہیں اور یہ بہت بڑا خطرہ ہے۔ پس تکفیر کے امر کو اسلامی دنیا کے بڑے بڑے علماء و فقہاء کی وسیع پیمانے پر علمی کاوشوں کی ضرورت ہے نہ یہ کہ اس موضوع کو چھوٹے علماء یا عام خطیبوں اور ان لوگوں پر چھوڑ دیا جائے جو دین و شریعت کے علوم میں وسیع مطالعے کے بغیر ہی لوگوں کی تکفیر کی غرض سے ذرائع ابلاغ اور سیٹلائٹ ٹی وی پر نمودار ہو جاتے ہیں۔ اب فرق نہیں پڑتا کہ تکفیر کرنے والا کس مذہب سے منسوب ہے اور دوسرا جس کی تکفیر کی جا رہی ہے؛ وہ کس مذہب سے تعلق رکھتا ہے۔
۲۔ صحابه اور امهات المؤمنين ؓكے بارے ميں موقف
اگر پہلا مسئلہ جس کی طرف اشارہ کیا جا چکا ہے (توحید و شرک)؛ امامیہ و سلفیہ کے روابط کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے تو پھر دوسرا مسئلہ (جو صحابہ اور ان کے بارے میں نقطہ نظر کا مسئلہ ہے) زیادہ خطرناک ہے اور آج امامیہ اور تمام اہل سنت کے باہمی روابط کی راہ میں ایک بڑے بحران کو جنم دینے کا باعث ہے۔ ہم اس موضوع پر مختصر انداز سے اپنا تصور پیش کریں گے اور اہل سنت اور اہل تشیع دونوں کیلئے بطور مساوی ہمارا پیغام درج ذیل ہے:
فهم تاريخ كے باب ميں حق اجتهاد پر قدغن؛ نامنظور
اولا: ہم (جیسا کہ کہہ چکے ہیں اور انشاء اللہ آگے بھی آئے گا) تسلیم کرتے ہیں کہ مسلمان کو دین کے مختلف مسائل میں اجتہاد کا حق حاصل ہے مگر یہ حق اجتہاد کلمہ شہادتین کو شامل نہیں ہے جو اسلام کی بڑی علامت ہے(کہیں کوئی شخص یہ نہ کہہ دے کہ میرے اجتہاد کے مطابق خدا نہیں ہے یا رسول نہیں ہے ۔۔۔ ایسا حق اجتہاد ہرگز نہیں ہے) ۔ہمارے نمایاں ترین دینی مسائل کا تعلق ان تاریخی واقعات سے ہے جو صدر اسلام میں رونما ہوئے۔ پس تاریخ اسلام ایک ایسی سرسبز و شاداب سرزمین ہے کہ جس میں علمی مطالعات انجام دئیے جاتے ہیں اور اس کی چھان بین، اس کی تحقیق، اس کی درجہ بندی اور اس کا خاص زاویے سے جائزہ لیتے وقت طرح طرح کی آرا سامنے آتی ہیں۔
اس لیے ہمارے نزدیک یہ معقول نہیں ہے کہ کوئی شخص دوسروں سے تاریخ کے مطالعے اور اس میں اجتہاد کرنے کا حق چھین لے۔ ہم اپنے اہل سنت بھائیوں سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ وہ بعض صحابہ کی طرف خطا کی نسبت دینے پر عائد کردہ پابندی میں تجدید نظر کریں کیونکہ یہ چیز مضر نہیں ہے کہ کوئی انسان اجتہاد کرے اور اس پر بعض صحابہ کی غلطیاں عیاں ہو جائیں؛ خواہ ہم اس میں اس کے موافق ہوں یانہ ہوں۔ لہٰذا کسی مفاہمتی فارمولے تک پہنچنے کیلئے اہل سنت کا فرض ہے کہ وہ صدر اول اور صحابہ سے متعلق واقعات میں تاریخی اجتہاد کی گنجائش پیدا کریں اور اس کے مقابلے میں شیعوں کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے آئمہ اور اپنے علماء کی تاریخ میں دوسروں کو اجتہاد کرنے کا موقع دیں۔
مسئلے کو افراتفری اور الجھاؤ کی فضا سے نکال کر درست علمی راہ پر گامزن کرنے کی یہی کنجی ہے۔ نبی ﷺکے بعد جتنی بھی شخصیات ہیں، ان کے بارے میں مسلمانوں کا اختلاف ہے۔ صحابہ کی عدالت امامیہ کے یہاں متنازعہ ہے جبکہ اہل بیتکی امامت پر سنیوں کو تحفظات ہیں۔ جو چیز اختلافی ہو اس میں کسی کو سرزنش کرنا سزاوار نہیں ہے بلکہ اس سے نمٹنے کا طریقہ کار صرف علمی تحقیق ہے۔
تاریخ کا قضیہ، اسلام کو تاریخی زاویے سے سمجھنے کی کنجی ہے اور یہ ضروری ہے کہ ہم ایسے علمی وسائل کے ذریعے اس تاریخ میں غور و خوض کریں جن کی جانچ پڑتال ہو چکی ہو۔
صحابه كى طرف خطا كى نسبت كا كفر سے موازنه
ثانیا: جب شیعہ صحابہ کے مسئلے میں اجتہاد کرے گا اور ان سے صادر ہونے والی غلطیوں تک پہنچ جائے گا جس کا سرچشمہ یہ ہے کہ وہ صحابہ کی عصمت تو دور کی بات، ان کی عدالت کا بھی قائل نہیں ہے۔۔۔ تو کیا اس کا یہ فعل کفر ہو گا ؟
وہ آپ کے نقطہ نظر سے جتنا بھی خطا کار ہو لیکن یہ خطا ہرگز کفر کے مترادف نہیں ہے حتی اگر آپ کے نقطہ نظر سے قرآن کریم پوری صراحت سے ان کی عدالت بیان کر رہا ہو لیکن دوسروں کے نزدیک یہ آیت کریمہ یا کوئی اور آیت عدالت پر نص نہ ہو تو آپ کیلئے یہ ممکن نہیں ہے کہ ان پر قرآن کی مخالفت یا قرآن سے مقابلہ کرنے یا قرآن سے دشمنی کرنے کی تہمت لگائیں؛ نبی ﷺکی دشمنی کی تہمت تو اس سے بڑھ کر ہے۔۔۔ ۔
یہ امر ضروری ہے کہ ہم ہمیشہ خطا اور کفر یا سازش یا دشمنی وغیرہ جیسے مفاہیم میں فرق کریں ورنہ ہمارے ساتھ کسی بھی تاریخی یا اعتقادی مسئلے میں اختلاف رکھنے والا ہر شخص کافر ٹھہرے گا اور اسلامی امہ کا نام و نشان مٹ جائے گا۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ کچھ لوگ شیعہ امامیہ کے عصمتِ اہل بیتپر مبنی عقیدے پر بھڑک اٹھتے ہیں اور یہ رائے قائم کر لیتے ہیں کہ اسلام میں کوئی بھی مقدس انسان نہیں ہے لیکن وہ اسی لمحے (لاشعوری طور پر) ہزارہا صحابہ کو مقدس شخصیات سے ملحق بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر آپ کو صحابہ کے امر میں اجتہاد کرنے کا اختیار ہے اور آپ انہیں خاص قداست کا حامل سمجھتے ہیں (اور ہم آپ کے اس اجتہاد کا احترام کرتے ہیں) تو ہمیں، دوسروں کو بھی اپنے آئمہ کے بارے میں اجتہاد کرنے دینا چاہئیے تاکہ وہ ان میں ان صفات کو دیکھ سکیں جنہیں وہ دلیلِ محکم کے معیارات میں سے قرار دیتے ہیں اور کسی کیلئے سزاوار نہیں ہے کہ دوسرے کی تکفیر کرے یا اس پر طعن و تشنیع کرے کیونکہ وہ خود بھی کسی خاص شخصیت کی قداست پر یقین رکھتا ہے۔
ہم سب کیلئے اس امر کا اعتراف کرنا بھی ضروری ہے کہ صحابہ کی غلطیوں کے مسئلہ کی سند صرف امامیہ کے یہاں موجود حدیثی و تاریخی نصوص پر منتہی نہیں ہوتی اور صحابہ پر تنقید والے متون اہل تشیع سے مخصوص نہیں ہیں بلکہ اگر ہم تھوڑا سا غور کریں تو ہم دیکھیں گے کہ خود اہل تشیع نے بھی دسیوں اہل سنت مصادر و منابع کا حوالہ دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جمہور مسلمین کی حدیثی و تاریخی میراث صحابہ کے بارے میں سوال و جواب اور ان کے مواخذے پر مشتمل ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو ہمارے لیے زیادہ سے زیادہ یہ موقع فراہم کرتی ہے کہ ہم اس موضوع پر ایک دوسرے کے اجتہادات کو قبول کر لیں۔
اماميه كى علمى ميراث اور صحابه كا مسئله
ثالثا: اہل سنت کی طرح ہم شیعوں سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ تمام تاریخی و مذہبی آثار سے قطع نظر کرتے ہوئے صحابہ کے بارے میں اپنے تمام خیالات پر ٹھنڈے دل سے نظر ثانی کریں۔ کچھ صحابہ سے جو کچھ سرزد ہوا؛ کیا وہ اجتہادی غلطی تھی یا لغزش تھی یا سوچی سمجھی سازش تھی یا کفر تھا یا ارتداد تھا یا پھر کیا تھا؟! کیا واقعا انگشت شمار شخصیات کے سوا باقی سب صحابہ کافر ہو گئے تھے (جیسا کہ بعض کہتے ہیں)
شیعہ کی علمی میراث بہت سے صحابہ کرام کو “رضی اللہ” کہنے سے بھری پڑی ہے۔ ایک معاصر شیعہ عالم نے ایک کتاب تالیف کی ہے جس میں ان صحابہ کو جمع کیا گیا ہے جو شیعہ کے نزدیک “رضی اللہ” ہیں؛ ان کی تعداد ڈھائی سو سے زیادہ ہے۔ ہم امامیہ کو یہ دعوت دیتے ہیں کہ شیعہ کی نسبت سے اس روایتی تصور کو زائل کر دیں جس سے یوں لگتا ہے کہ وہ گنتی کی چند شخصیات کے سوا باقی صحابہ کے موافق نہیں ہیں بلکہ انہیں قصور وار یا مجرم قرار دیتے ہیں ۔۔۔ ان تصورات پر نظر ثانی ضروری ہے تاکہ ایک ایسے طرز تفکر تک پہنچا جا سکے جو نہ آئیڈیولیجیکل (Ideological)ہو اور نہ ہی ڈبہ بند (Packed)ہو۔
شیعہ کی علمی میراث میں بہت سی ایسی نصوص ہیں جن میں صحابہ کے مورد میں نرم گوشہ اپنایا گیا ہے۔ اس نوع کی ایک نص وہ ہے جسے شیخ حر عاملی متوفی (۱۱۰۴ھ) نے اپنی کتاب (رسالة في معرفة الصحابة) میں ذکر کیا ہے جس میں انہوں نے ۴۸۱ صحابہ کے بارے میں چھان بین کی ہے، کہتے ہیں: “جان لو کہ درج ذیل اکثر اسماء توثیق و مدح سے خالی ہیں لیکن جن کی مذمت مروی نہیں ہے اور ان کے بارے میں کسی ایسی چیز کی اطلاع نہیں ہے جو قدح کی موجب ہو تو اس کی صحابیت کے ثابت ہو جانے میں ایک قسم کی مدح مضمر ہے ۔۔۔[37] ۔
پس شیخ حر عاملی یہاں پر صحابی کی مدح کو اصل قرار دے رہے ہیں مگر وہ جو دلیل سے خارج ہو جائے؛ نہ کہ اس چیز کو جو معروف ہے کہ شیعہ صحابہ میں جس چیز کو اساس قرار دیتے ہیں؛ وہ ان کی مذمت ہے۔
بلا شبہہ یہ بھی ممکن ہے کہ طول تاریخ میں صحابہ کرام کے حوالے سے چشم پوشی پر مبنی تمام شیعہ نصوص کو جمع کرنا، صدرِ اسلام کی تاریخ کا زیادہ بہتر خاکہ تیار کرنے میں ممد و معاون ثابت ہو۔
مقدسات پر لعنت
چہارم: شاید گزشتہ مطالب اس مسئلے کے سامنے ناچیز ہوں گے جسے اہل سنت اور امامیہ کے تعلقات کیلئے زہر قاتل سمجھا جاتا ہے اور وہ ہے صحابہ پر لعنت کا مسئلہ۔ تاحال شیعہ کے مشہور علماء میں سے کسی نے بھی لعنت کو واجب نہیں کیا اور وہ سرعام لعنت کو جائز نہیں قرار دیتے کہ بعد میں شیعہ کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑے لیکن اس کے باوجود امامیہ کا عام ماحول (میں کھل کر کہنا چاہوں گا) تبرّا سے منع نہیں کرتا بلکہ بعض شیعوں کے نزدیک بعض شخصیات پر لعنت ایک دینی عادت کے طور پر رائج ہے۔ حالیہ دنوں میں اس عادت کے اندر شدت آئی ہے حالانکہ خود شیعوں کے درمیان بھی اس کے بارے میں اختلافات ہیں۔
قیاس آرائیوں اور اجتہادات سے ہٹ کر ہمارا یہ پیغام ہے کہ اس عادت کو ترک کیا جائے اور اسے دینی ثقافت کے اندر ایک مرغوب عادت نہ سمجھا جائے اور ہم پوری جرأت کے ساتھ شیعہ امامیہ کی مرجعیت سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ اس عادت کے مقابلے میں فیصلہ کن بات کہیں اور جرأت مندانہ موقف اختیار کریں کہ جو تیزی سے پھیل رہی ہے اور بے قابو ہو چکی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ دوسرے مسلمانوں کے مقدسات کی توہین کرنا اور انہیں اس حوالے سے تکلیف دینا اور مسلمانوں کے باہمی تعلقات کو خراب کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے، کیا امامیہ یہ قبول کر سکتے ہیں کہ کوئی شخص اہل بیت میں سے کسی کو برا بھلا کہے یا ان پر (معاذ اللہ) لعن طعن کرے؟ اگر کوئی شخص امر دین سمجھتے ہوئے یہ کام کرے تو وہ اسے کافر قرار دیتے ہیں اور اہل بیت کو برا بھلا کہنے والے کے قتل کا فتویٰ صادر کرتے ہیں۔ تو پھر کیوں ہم آج دوسرے مسلمانوں کا احترام نہیں کرتے کہ ان کے مقدسات کو نشانہ نہ بنایا جائے، جیسے ہم ان سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ ہمارے مقدسات کا احترام کریں؟ اور ہم اس وقت ان کی اس پریشانی اور بے چینی کا ادراک کیوں نہیں کرتے کہ جب ہم ان کے جذبات یا مسلمان ہونے کے ناطے ان کے حقوق کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ان کے مقدسات پر سرعام لعنت بھیجتے ہیں یا انہیں گالم گلوچ کرتے ہیں؟! پھر جب وہ ہمارے مقدسات کو نشانہ بناتے ہیں تو ہم ان کے کفر اور ان کے واجب القتل ہونے کا فتویٰ صادر کر دیتے ہیں؟!
ہمارا پیغام یہ ہے کہ اس عادت کو چھوڑ دیا جائے جو کچھ شیعوں کو ہے اور اسی طرح تکفیر کے رویے اور بالمقابلہ تکفیر کو ترک کیا جائے اور اگر آپ کسی کے بارے میں کوئی رائے رکھتے ہیں تو اسے دلیل و حجت کے ساتھ بیان کریں اور شیعہ کے نزدیک اسلامی صدر اول کے واقعات میں جو حق ہے؛ اس کی شرح و تفصیل بیان کیجئے، تو یہ چیز زیادہ مؤثر ہو گی۔ امام علی سے منقول حدیث میں یہ قول وارد ہوا ہے: (۔۔۔ کرھت لکم أن تکونوا لعّانین شتّامین۔۔۔)[38](مجھے یہ ناپسند ہے کہ تم لعنت کرنے والے اور گالم گلوچ کرنے والے بنو)
ہم واشگاف الفاظ میں صحابہ کے مسئلے میں زبان بندی کو یکسر مسترد کرتے ہیں اور اس شخص کو کافر یا مجرم قرار دینے کو بھی مسترد کرتے ہیں جو صحابہ کی عدالت کے حوالے سے جمہور اہل سنت کے ہاں معروف رائے کے علاوہ کوئی اور رائے رکھتا ہو اور کسی دوسرے مسلمان کے مقدسات (صحابہ ؓو امہات المؤمنین ؓ) کی توہین کرنے یا انہیں گالیاں دینے کو بھی مسترد کرتے ہیں اور اسی طرح ان تمام قبیح حرکات کو جو اس تناظر میں کی جاتی ہیں؛کو بھی مسترد کرتے ہیں جیسے امامیہ کی بہت کم تعداد کے ہاں جو کچھ ۹ ربیع الاول کو ہوتا ہے۔ (حضرت زہرا کی خوشی کے نام پر)
ہم اس امر پر زور دیتے ہیں کہ اس طرز عمل کو علمی آزادی اور علمی تحقیق کی منطق سے بدلا جائے، اسی طرح ہمیں تاریخ اور وقائع تاریخ کے حوالے سے اپنے ہر فریق کے نقطہ نظر کے بارے میں ایسی تعبیریں استعمال کرنے کی آزادی ہو جن میں اخلاق و اعتدال کا خیال رکھا گیا ہو۔
مجھے نہیں معلوم کہ صحابہ پر تنقید کو دبانے اور اس کی ممانعت پر یہ سارا اصرار کیوں ہے حالانکہ یہ تاریخی آرا و نظریات ہیں جن پر علمی پس منظر سے بحث کرنا ضروری ہے؟! اگر ہم صحابہ کی عدالت کے حوالے سے اپنے نظریے کی قوت پر مطمئن ہیں تو ہمیں دوسروں کو اس پر بحث و تمحیص کا موقع دینا چاہئیے، پھر انہیں منطق، معرفت اور دلیل کی قوت سے جواب دینا چاہئیے نہ کہ تکفیر، خوف و ہراس پھیلانے، الزام تراشی کرنے اور سختی سے کچلنے کے ساتھ۔
کیا صحابہ کے مسئلے میں لوگوں کی زبان بندی کر کے کوئی فائدہ حاصل ہو گا اور اہل سنت ایک ہزار سے زائد برسوں سے یہ کرتے چلے آ رہے ہیں لیکن انہیں فتنوں، تنازعات، مختلف علاقوں میں عظیم اسلامی حکومت کے زوال اور اس مسئلے میں مدّ مقابل کی جانب سے تنقید پر اصرار کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔
مجھے نہیں معلوم کہ لعنت کی مشق پر اس قدر اصرار کیوں ہے جبکہ یہ واجب بھی نہیں ہے اور نہ ہی شیعہ عقائد کے اصول میں سے ہے؟! کیا آج مسلمانوں کا خون بہایا جانا ایک معمولی چیز ہے (کہ جسے نظر انداز کر دیا جائے) اور سیٹلائٹ چینلز وغیرہ سے نشر کی جانے والی لعنت اور توہین ایک بہت بڑا کام ہے کہ جس پر اصرار کیا جائے؟! حالانکہ یہ امامیہ کے بڑے بڑے مجتہدین کے نزدیک شرعی اعتبار سے واجب بھی نہیں ہے؟ ان لوگوں کو فتویٰ منگوانا چاہئیے تاکہ ہم دیکھ سکیں کہ آیا مراجع کرام میں سے کوئی ایک بھی اس لعن طعن، گالم گلوچ یا توہین کو واجب قرار دیتا ہے؟ اور کیا یہ شرعی اور الزامی تکلیف ہے؟ کیا (استحباب ثابت ہونے کے فرض کی بنا پر) اس مستحب کو ترک کرنا سزوار نہیں ہے تاکہ مسلمانوں کے خون اور امت کی وحدت و کرامت کی حفاظت ہو سکے، جو اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے؟!
کیا اسلامی تاریخ میں اموی خلافت ہی سب و شتم اور لعنت کے مذہب کی بانی نہیں ہے جیسا کہ اکثریت اس بات کی قائل ہے۔ اس کی وجہ ان کا (کئی دہائیوں تک) علی و آل علیپر منبروں سے (معاذ اللہ) لعنت بھیجنا ہے؟! یہ شائستہ نہیں ہے کہ بنی امیہ کی منطق کو ان کے مخالفین دہرائیں بلکہ ان کی ذمہ داری ہے کہ اس سے دوری اختیار کریں اور اخلاق، اعلیٰ کردار، نقدِ تاریخ اور کمزوریوں کی نشاندہی کی روش کو مستحکم کریں۔
کیا امت سے آج (قیام کرنے کی بجائے) یہ مطلوب ہے کہ وہ تاریخی مسائل پر اس طرح سے باہم دست و گریبان ہو کہ لعنت، گالم گلوچ، ایک دوسرے کا قلع قمع کرنے، آزادیوں پر ڈاکہ ڈالنے وغیرہ میں آبادیوں کی آبادیاں ملوث ہوں؟ کیا ایسا سوچا جا سکتا ہے کہ ہم اس لڑائی کی وجہ سے اسلامی امت کی پسماندگی کو دیکھ کر خوش ہوں یا اس دکھ کو سرفہرست قرار دیتے ہوئے مسلمانوں کو زبوں حالی سے نکالنے کی تدبیر کی جائے ۔
امهات المؤمنين كى پاكدامنى اور بزرگى
پنجم: اسی تناظر میں امہات المؤمنین ؓ کے بارے میں موقف کا مسئلہ آتا ہے، بالخصوص حضرت عائشہ جو قرآن کریم کی نص کے بموجب ام المؤمنین ہیں خواہ ہمیں یہ اچھا لگے یا نہ لگے۔ ان پر یا ان سب میں سے کسی ایک پر بدکاری کی تہمت یا انہیں گالی دینا؛ کسی صورت قابل قبول نہیں ہو سکتا اور جب ان چیزوں کو آڈیو اور ویڈیو ذرائع ابلاغ اور سیٹلائیٹ چینلوں پر نشر کرنا مقصود ہو تو کس قدر بری بات ہے؟!
بلاشبہہ بعض علمائے امامیہ نے ازواج نبی ﷺکو “امہات تبجیل” (بزرگ مائیں) کہا ہے۔ علامہ محمد بحر العلوم متوفی ۱۳۲۶ھ فرماتے ہیں: جان لو کہ “أم” کے تین اطلاق ہیں: نسبی مائیں، رضاعی مائیں اور بزرگی و عظمت والی مائیں، ان سے مراد ازواج رسول ﷺہیں، یہ مومنین کی مائیں ہیں ۔۔۔ [39]۔
یقینا نبی ﷺکا شرف ہمارا شرف ہے اور شیعہ انبیاء کو تمام قابل نفرت امور کہ جن میں سے بعض نے ان کی ازواج کے زنا کو بھی شمار کیا ہے؛ سے پاک سمجھتے ہیں۔ اسی لیے مفسرین نے بعض انبیاء کی ازواج کی خیانت کی تفسیر خیانت کے معروف معنی کہ جو زنا اور بدکاری سے مربوط ہے؛ سے ہٹ کر کی ہے[40]۔
شيعه كے دينى مراكز كو جرأت مندانه تاريخى موقف اختيار كرنے كی دعوت
ہم دینی مراکز پر زور دیتے ہیں کہ وہ مجتہد اعظم سید علی سیستانی، مجتہد اعظم سید علی خامنہ ای، مجتہد اعظم سید محمد حسین فضل اللہ، مجتہد اعظم سید محمود ہاشمی اور مجتہد اعظم شیخ محمد آصف محسنی کے نقش قدم پر چلیں کیونکہ انہوں نے لعنت یا صحابہ کو برا بھلا کہنے یا ازواج نبی اور امہات المؤمنین میں سے کسی ایک کی بھی توہین کرنے کے حوالے سے فتاویٰ بھی صادر کیے ہیں اور اس کی مذمت بھی کی ہے۔ ان دینی مراکز کو سکوت پر اکتفا نہیں کرنا چاہئیے خواہ وہ ان چیزوں کو ممنوع قرار دینے کے حوالے سے مراجع کرام کے موقف سے متفق بھی کیوں نہ ہوں۔
کیا دو طرفہ تشدد اور کوچہ و خیابان میں لوگوں کے قتل عام اور شیعوں کا ہر جگہ سے صفایا کر دینے سے مسئلہ حل ہو جائے گا؟ اور کیا اس قسم کے کام یا تکفیر کے فتوے اور شیعوں پر حملے، مٹھی بھر لوگوں کی طرف سے نبی ﷺکے شرف کی بے احترامی کا سلسلہ روک دیں گے یا پھر دوطرفہ تشدد اس بے ادبی میں اضافہ کر دے گا اور معاملات زیادہ پیچیدہ ہو جائیں گے؟ کیا زیادہ سزاوار یہ نہیں ہے کہ ہم شدت پسندی کی بنیادوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں اور دونوں طرف کے اعتدال پسند لوگ مل بیٹھ کر ایسی حکمت عملی وضع کریں جس سے ان شدت پسندانہ رسومات کے گرد گھیرا تنگ کیا جا سکے۔
اهل سنّت كے دينى مراكز كو اهل بيت عليهم السلام كے حوالے سے سنجيدہ اور جرأت مندانه كردار ادا كرنے كى دعوت
ششم:بالکل اسی یا اس سے نزدیک سیاق و سباق کے ساتھ ہمیں بہت سے اہل سنت سے بھی گلہ اور شکایت ہے اور ہمارے نزدیک ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان مسائل پر جمود کا شکار نہ ہوں اور قدم بڑھائیں تاکہ مسلمانوں کو ایک دوسرے کے قریب کیا جا سکے اور سنت نبی کہ جس کا ہمیں فریقین کی بہت سی احادیث شریفہ میں حکم دیا گیا ہے؛ پر عمل کیاجا سکے۔ میری مراد یہ ہے کہ عام سنی مسلمانوں کے اندر شیعہ کے آئمہ اہل بیتکے حوالے سے شعور اجاگر کیا جائے۔
کیوں وہ درد ناک سانحہ مخفی رہے جو سبط نبی ﷺ، اہل بیتاوراصحاب کے ساتھ کربلا میں پیش آیا؟ آخر کیوں یہ بھول چوک یا چشم پوشی یا ابہام باقی رہے؟ جب ہمارا شعار آل اور اصحاب سے محبت کا ہے تو ضروری ہے کہ ہم اس شعار پر حقیقی طور پر پورا اتریں تاکہ ہماری آپس کی محبوبیت میں اضافہ ہو اور مسلمانوں کے درمیان دو طرفہ تعلقات کے وسیع مواقع فراہم ہوں۔
ہم اہل بیت اور آئمہ شیعہ کہ جن کا جمہور اہل سنت احترام کرتے ہیں ان کے ذکر کے احیا کی دعوت دیتے ہیں اور یہ کہ ہمارا موقف اہل بیت پر طول تاریخ میں ظلم کرنے والوں کے بارے میں دوٹوک اور جرأت مندانہ ہونا چاہئیے، بالخصوص اموی و عباسی زمانہ حکومت کے دوران اور یہ کہ ہم نبی کے گھرانے کے معاملے میں حق و انصاف سے کام لیں، پس یزید بن معاویہ اور اس کے ساتھیوں کی مذمت کریں نہ یہ کہ امام حسینپر حاکم وقت کے خلاف خروج کی تہمت لگا کر تنقید کرنے لگ جائیں!
کیا کوئی شخص جعفر بن محمد صادق سے بغض رکھتا ہے یا کوئی زین العابدین، سید الساجدین علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب علیہ السلام سے دشمنی رکھتا ہے یا یہ کہ سارے مسلمان ان دونوں پر اور تمام اہل بیتپر فخر کرتے ہیں؟ کیا سارے مسلمانوں کے مصادر میں اہل بیتکی مدح میں بے حد و حساب احادیث، روایات اور آثار نہیں ہیں؟
کیا سنی روایات میں اموی و عباسی خلافت کے بہت سے جرائم کا ذکر نہیں ہے کہ جنہیں عوامی سطح پر چھپایا جاتا ہے اور بعض اوقات جمہور اہل سنت کو باور کرایا جاتا ہے کہ یہ اموی تاریخ مجد و عظمت کی حامل ہے یا یہ کہ اس کی اچھائیاں برائیوں سے بہت زیادہ ہیں؟!
اگر سنی کو امامی سے کوئی مسئلہ ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اس مسئلے کی زد میں خود اہل بیتکو لے آئیں۔ گویا ہم ان ہستیوں سے کہ جو ہم سب کے نزدیک مقدس ہیں؛ انتقام لے کر کچھ لوگوں سے انتقام لے رہے ہیں! حالانکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿قُلْ أَغَيْرَ اللَّهِ أَبْغِي رَبًّا وَهُوَ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ وَلا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ إِلا عَلَيْهَا وَلا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ مَرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ ﴾[41]
(کہہ دیجیے:کیا میں کسی غیر اللہ کو اپنا معبود بناؤں؟حالانکہ وہ ہر چیز کا رب ہے اور ہر شخص اپنے کیے کا خود ذمہ دار ہے اور کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا پھر تم سب کو اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے پھر (وہاں) وہ تمہیں بتائے گا جس چیز کے بارے میں تم لوگ اختلاف کرتے تھے)
﴿مَنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا وَلا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولا﴾[42]
(جو شخص بھی ہدایت حاصل کرتا ہے وہ اپنے فائدے کے لئے کرتا ہے اور جو گمراہی اختیار کرتا ہے وہ بھی اپنا ہی نقصان کرتا ہے اور کوئی کسی کا بوجھ اٹھانے والا نہیں ہے اور جب تک ہم پیغمبر نہ بھیج لیں عذاب نہیں دیا کرتے)
اسلامی دنیا کی تعلیم و تربیت کی وزارتوں اور اطلاعات، ثقافت اور ارشاد کی وزارتوں کی طرف سے سنجیدہ اقدامات مطلوب ہیں، اسی طرح دینی اداروں سے بھی مطلوب ہے کہ اپنے تعلیمی نظام میں اہل بیتکہ جو وحی اور رسول اللہ ﷺپر نازل ہونے والے احکام کا دوسروں سے زیادہ علم و فہم رکھتے ہیں؛ کی تعلیمات کو سمونے کے حوالے سے سنجیدہ اقدامات کریں۔
ہماری خواہش ہے کہ جمہور و عوام اہل سنت اہل بیت اور ان کے علوم سے روشناس ہو جائیں اور زیادہ سے زیادہ ان کا ذکر کریں، ان کے امر اور ان کے مصائب کا احیاکریں۔ کیوں نہج البلاغہ، صحیفہ سجادیہ، رسالہ حقوق وغیرہ جیسے اہل بیتکے نفیس آثار ایک سنی مسلمان کی زندگی سے غائب ہیں۔
اسی طرح ہماری آرزو ہے کہ امامیہ بہت سے ان صحابہ و تابعین کہ جن کے ساتھ امامیہ کو کوئی مسئلہ نہیں ہے؛ کی کامیابیوں سے آگاہ ہوں، کیوں بہت سے صحابہ کی جہادی تاریخ منظر عام سے غائب ہے اور ان کے ہر مثبت نقطے کا انکار کیا جاتا ہے، یا اسے مبہم رکھا جاتا ہے یا اس سے لاپرواہی برتی جاتی ہے؟!
اگر آپ کے نزدیک کسی صحابی میں کوئی مسئلہ ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ حتی اس کی نیکیوں کو بھی دبانا شروع کر دیں یا آپ دیگر صحابہ کرام کے ذکر کو بھی ممنوع قرار دیں۔ ایسا کیونکر ممکن ہے جبکہ قرآن کریم کچھ خصلتوں میں بعض کافروں کی ان کے کفر کے باوجود مدح کر رہا ہے اور سنت شریفہ میں بھی یہ وارد ہوا ہے۔
عدل و انصاف كے بارے ميں قرآن كريم كى منطق
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَمِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مَنْ إِنْ تَأْمَنْهُ بِقِنْطَارٍ يُؤَدِّهِ إِلَيْكَ وَمِنْهُمْ مَنْ إِنْ تَأْمَنْهُ بِدِينَارٍ لا يُؤَدِّهِ إِلَيْكَ إِلا مَا دُمْتَ عَلَيْهِ قَائِمًا ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لَيْسَ عَلَيْنَا فِي الأمِّيِّينَ سَبِيلٌ وَيَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُمْ يَعْلَمُونَ﴾[43]
(اور اہلِ کتاب میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جن کے پاس ڈھیر بھر مال بھی امانت رکھ دیا جائے تو واپس کردیں گے اور کچھ ایسے بھی ہیں کہ ایک دینار بھی امانت رکھ دی جائے تو اس وقت تک واپس نہ کریں گے جب تک ان کے سر پر کھڑے نہ رہو- یہ اس لئے کہ ان کا کہنا یہ ہے کہ امیوں کے بارے میں ہم سے مواخذہ نہیں ہوگا)
اگر کچھ اہل کتاب امانت کو واپس نہیں کرتے تو یہ چیز قرآن کو اس بات سے نہیں روکتی کہ ان بعض کا ذکر کرے جو امانتیں ادا کرتے ہیں اوریوں قرآن کریم منصف و عادل ہے۔ یہ ہے قرآن کریم کا طریقہ کار۔
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَهُمْ مَوَدَّةً لِلَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَى ذَلِكَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيسِينَ وَرُهْبَانًا وَأَنَّهُمْ لا يَسْتَكْبِرُونَ﴾[44]
(اہل ایمان کے ساتھ عداوت میں یہود اور مشرکین کو آپ پیش پیش پائیں گے اور ایمان والوں کے ساتھ دوستی میں انہیں قریب تر پائیں گے، جو اپنے آپ کو نصاری ٰکہتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں پادری اور راہب پائے جاتے ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے)
بلاشبہہ قرآن عزیز نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ کسی کے ساتھ دشمنی ہمیں عدل و انصاف کی مشق سے دور نہ کر دے، چنانچہ ارشاد ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تُحِلُّوا شَعَائِرَ اللَّهِ وَلا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلا الْهَدْيَ وَلا الْقَلائِدَ وَلا آمِّينَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ يَبْتَغُونَ فَضْلا مِنْ رَبِّهِمْ وَرِضْوَانًا وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوا وَلا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ أَنْ صَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَنْ تَعْتَدُوا وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلا تَعَاوَنُوا عَلَى الإثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ﴾[45]
(اے ایمان والو! تم اللہ کی نشانیوں کی بے حرمتی نہ کرو اور نہ حرمت والے مہینے کی اور نہ قربانی کے جانور کی اور نہ ان جانوروں کی جن کے گلے میں پٹے باندھ دیے جائیں اور نہ ان لوگوں کی جو اپنے رب کے فضل اور خوشنودی کی تلاش میں بیت الحرام کی طرف جا رہے ہوں، ہاں! جب تم احرام سے باہر آجاؤ تو شکار کر سکتے ہو اور جن لوگوں نے تمہیں مسجد الحرام جانے سے روکا تھا کہیں ان کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کر دے کہ تم بھی (ان پر) زیادتیاں کرنے لگو اور (یاد رکھو) نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور زیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون نہ کیا کرو اور اللہ سے ڈرو، اللہ کا عذاب یقینا بہت سخت ہے)
اسی طرح ارشاد الٰہی ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ﴾[46]
(اے ایمان والو! خدا کے لئے قیام کرنے والے اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بنو اور خبردار کسی قوم کی عداوت تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ انصاف کو ترک کردو -انصاف کرو کہ یہی تقویٰ سے قریب تر ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو کہ اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے)
یہ سب کچھ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ حق کو کہنا اور اس کی پیروی کرنا زیادہ سزاوار ہے۔ اسی سے ہم ایک دوسرے سے نزدیک ہوتے ہیں اور اپنی رہنما شخصیات اور مقدسات کی تاریخ سے آگاہ ہوتے ہیں اور ہمارے اندر اسلام اور اس کے وسیع و مفید تجربے کے احترام میں اضافہ ہوتا ہے۔
اس مناسبت سے ہم دونوں گروہوں (اہل سنت و امامیہ) کو یہ دعوت دیتے ہیں کہ وہ امام زید بن علی بن حسین بن علی بن ابو طالب کی یاد، ان کے آثار، ان کے تقویٰ اور ان کی دینداری کو اپنے سامنے رکھیں۔ آپ اہل بیت کی ایک مثالی شخصیت ہیں اور ہماری معلومات کے مطابق آج سب ان کا احترام کرتے ہیں۔
۳۔ قرآن كريم كى تحريف اور سنت نبوی كا انكار
ابھی تک تحریف قرآن کا مسئلہ بعض مسلمین کے نزدیک محل بحث ہے کیونکہ شیعہ امامیہ پر یہ تہمت لگائی جاتی ہے کہ وہ کتاب عزیز کی تحریف کے قائل ہیں۔ آخری چند دہائیوں میں اس تہمت کے کم رنگ ہونے اور بہت سے اہل سنت کی مسئلے سے آگہی کے باوجود ابھی تک کچھ دینی گروہ تسلسل کے ساتھ اسے اچھالنے اور اس کی تشہیر کرنے پر مصر ہیں۔
ہم اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ امامیہ کی بعض حدیثی کتب میں کچھ ایسی روایات موجود ہیں جن سے تحریف قرآن کا مفہوم نکلتا ہے۔ اسی طرح ہم یہ اقرار بھی کرتے ہیں کہ طول تاریخ میں بہت کم امامیہ علماء تحریف قرآن کے قائل رہے ہیں۔
لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ شیعہ بالخصوص آج کے شیعہ، تحریف قرآن کے قائل ہیں؟!
ہماری اہل سنت بھائیوں کو دعوت اس امر پر قائم ہے کہ اس حساس مسئلے میں غیر جانبدارانہ سوچ بچار کریں اور شیعہ عقائد کی تشکیل کے طریقہ کار سے آگاہی حاصل کریں۔ اگر شیعہ کے حدیثی مصادر میں ایسی روایات موجود ہوں جن سے تحریف قرآن ثابت ہوتی ہو (حالانکہ علمائے شیعہ نے ان کی ایسی تاویلات پیش کی ہیں جن سے یہ ان کے نقطہ نظر کے مطابق تحریف کے نظریے سے دور ہو جاتی ہیں) تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ شیعہ تحریف قرآن پر ایمان رکھتا ہے کیونکہ شیعہ اپنی دینی تعلیمات معاصر دینی مراجع کرام سے لیتے ہیں اور انہیں اپنی قدیم کتب سے اخذ نہیں کرتے اور اجتہاد کا دروازہ ان کے یہاں کھلا ہوا ہے اور ان کے علماء میں مشہور قول یہی ہے کہ میت کی تقلید جائز نہیں ہے۔ لہٰذا شیعہ کے بنیادی عقائد کی تشکیل صرف اس لڑی کے واسطے سے ہوتی ہے جو عوام الناس کو پہلے کے اور بعد کے علماء سے مربوط کر دیتی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر آج میں بنیادی مسائل میں امامیہ کے عقائد کو سمجھنا چاہتا ہوں تو مجھ پر لازم ہے کہ ان کے حوزات علمیہ، مراجع کرام اور معاصر علماء کی طرف رجوع کروں نہ کہ ہزار سال پہلے وفات پا جانے والے کسی عالم کی کسی نص کی طرف۔ اس لیے کہ امامی ان کتابوں کی طرف رجوع نہیں کرتا اور علماء و مشائخ ان کتابوں سے جواب نہیں دیتے بلکہ عام طور پر علمائے متاخرین اور معاصرین کے اجتہادات سے جواب دیتے ہیں۔
اگر تاریخ میں کچھ ایسے اسما پراکندہ ہیں جو تحریف قرآن کے قائل ہیں تو کیا ہوا کیونکہ امامیہ کی اکثریت کا (سوائے شاذ و نادر کے) بالخصوص عصر حاضر میں قرآن کریم کے زیادتی و نقص دونوں سے محفوظ ہونے پر اتفاق و اجماع ہے؛ تو اس موضوع کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے اور اسے مبالغہ آمیز سطح تک لے جانے کا کیا سبب ہے؟! کب شیعہ کے گھروں میں اس قرآن کے علاوہ کوئی دوسرا قرآن دیکھا گیا ہے؟!
وہ نسخہ کہاں پر ہے جسے دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ شیعہ کے پاس ایک دوسرا قرآن ہے؟ ان کے قاری، حفّاظ، مفسرین(علمائے امامیہ کی دسیوں تفسیری کتب ہیں) اور ان کے علماء کی کتابیں اور ان کے گھر ۔۔۔۔ کسی جگہ بھی اس کتاب کریم کے علاوہ کوئی کتاب نہیں ہے کہ جس کی چھپائی غالبا سعودی عرب کے مطبوعہ قرآن کے مطابق ہوتی ہے۔ تو پھر کیوں اس مسئلے پر اس قدر تکرار کی جاتی ہے؟ اور اس کی مبالغہ آمیز تشہیر کا کیا جواز ہے؟ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ کوئی شخص ایک بات کہے تو واجب ہو جائے کہ ہم اس کا بوجھ پورے مذہب پر ڈال دیں پھر اسے بڑھانے چڑھانے لگ جائیں اور ایک مشکل کھڑی کر دیں؟
تفسیر قرآن، حفظ، تعلیم قرآن اور قرآنیات میں تخصص کے میدان میں شیعوں کی ان ساری کامیابیوں (بالخصوص گزشتہ صدی میں) کے بعد اب وقت آن پہنچا ہے کہ ہم اس تہمت کو غلط قرار دیں۔ دیکھیئے! یہ شیعہ کی دینی جامعات اور ادارے ہیں جن میں قرآنیات کے بہت سے تخصّصی کورس مقرر کیے گئے ہیں، اور دیکھیں! یہ شیعہ علماء ہیں جو قرآن کریم کے متعلق ہزارہاکتابیں چھاپ رہے ہیں۔۔۔ ۔
قرآن کے تحریف سے سالم ہونے کے حوالے سے شیعہ کی پوری تاکید کے بعد، کیا اب وقت نہیں آن پہنچا کہ اس موضوع پر مزید بحث و تمحیص نہ کی جائے؟! کیا اہل سنت کی کچھ روایات کا تحریف کی طرف اشارہ نہیں ہے؟ تو کیا اس وادی میں ان پر الزام تراشی جائز ہے؟!
یہاں پر دوسرا مسئلہ یہ کہا جانا ہے کہ امامیہ سنت رسول کے منکر ہیں اور فقط اہل بیتکی سنت کو اخذ کرتے ہیں۔ میرے نزدیک صاحبان عقل و درایت کو اس موضوع پر زیادہ غور و فکر کرنا چاہئیے تاکہ ان سارے تاریخی اشتباہات سے چھٹکارا حاصل کر سکیں۔
شیعہ کی حدیث و غیر حدیث کی کتابوں میں (یہ بات ذمہ دارانہ اور دقیق حساب کتاب پر مبنی ہے) نبی کریم ﷺ کی ہزارہا حدیثیں ہیں، تو انہوں نے کب سنت نبی کا دامن چھوڑا ہے؟!
كيا اماميه كے عدالتِ صحابه كا قائل نه هونے سے واقعا سنت نبوی سے رابطه منقطع هو جاتا هے؟!
مسئلہ یہ ہے کہ بعض کے نزدیک عدالتِ صحابہ کے قائل نہ ہونے کا مطلب ہمارا عصر نبوی سے رابطہ منقطع ہو جانا ہے کیونکہ صحابہ وہ پہلی قوم ہیں جنہوں نے ہمارے لیے اس زمانے کے واقعات کو نقل کیا ہے۔ اگر ہم یہ کہنے لگیں کہ وہ عادل نہیں ہیں تو اس واسطے کی حیثیت ساقط ہو جائے گی اور اس زمانے کے بارے میں ہماری معلومات ناپید ہو جائیں گی اور یہ چیز، یعنی سنت نبوی تک پہنچنے کے باب کو بند کرنا۔۔۔ ۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ معاملہ یکسر مختلف ہے چونکہ امامیہ جب عدالتِ صحابہ کو تسلیم نہیں کرتے تو ان کے سامنے سنت رسول ﷺتک پہنچنے کے راستے بند نہیں ہوتے کیونکہ ان کے نزدیک دو عظیم راستے باقی ہیں، جو یہ ہیں:
۱۔ عادل صحابه
اس کی وجہ یہ ہے کہ امامیہ جب عدالتِ صحابہ کے نظریے کو مسترد کرتے ہیں تو وہ تمام صحابہ کے بارے میں منفی موقف نہیں رکھتے یا ایسا نہیں ہے کہ تمام کی حدیثوں کو اخذ نہ کرتے ہوں بلکہ وہ ایک محدود گروہ کے بارے میں ایسا موقف رکھتے ہیں ورنہ ان کے نزدیک اکثر صحابہ “رضی اللہ” ہیں مشہور قول یا اس قول کی بنا پر جسے ان کے بڑے علماء کی کثیر تعداد نے اختیار کیا ہے؛ جیسے جابر بن عبد الله أنصاری، أبو سعید خدری، عبد الله بن مسعود، عمار بن یاسر، ام سلمة، اسماء بنت عمیس، حذیفة بن یمان، خزیمة بن ثابت، عبد الله بن عباس، ابو ذر غفاری، مقداد بن اسود كندی، حجر بن عدی، ابو ایوب انصاری، خبّاب بن ارت، قیس بن سعد بن عبادة، اُبیّ بن کعب، سلمان فارسی المحمدی اور ان کے علاوہ بہت سے دیگر صحابہ کرام ۔۔۔ ۔ تو ہمارا یہ خیال بہت بڑا مغالطہ ہے کہ اہل تشیع صحابہ کرام کو سرے سے “رضی اللہ” نہیں مانتے۔
۲۔ اهل بيت
اور وہ سنت نبی ﷺکے ایسے عالم ہیں کہ جنہوں نے سنت کو ہمارے لیے ایک سے دوسرے بزرگ کے واسطے سے نقل کیا ہے جیسا کہ امامیہ کی روایات کے مطابق وہ خود اس بات کی تصریح کرتے ہیں۔ اسی بنیاد پر انہوں نے (الجامعۃ[47]) کی تدوین کی کہ جس میں شرعی احکام ہیں اور وہ نسلا بعد نسل اس کتاب کی حفاظت کرتے تھے اور اس کی طرف رجوع کرتے تھے۔ پس شیعہ بہت سی احادیث نبوی کو اہل بیتکے ذہبی سلسلہ سے اخذ کرتے ہیں۔
اس بنا پر، میرا خیال ہے کہ اس جیسے موضوعات پر بحث و تمحیص کو ترک کر دینا چاہئیے تاکہ ہمارے روابط اور تعلقات کے درمیان کوئی خیالی رکاوٹ باقی نہ رہے۔ پس شیعہ اہل بیت کی سنت کو سنت رسول ﷺکے سوا کچھ نہیں سمجھتے بلکہ سمجھتے ہیں کہ جو اہل بیتکہتے ہیں؛ اسے اپنے آباء و اجداد سے علی ، فاطمہ، حسن اور حسین کے واسطے سے رسول اللہ ﷺسے اخذ کرتے ہیں، پس وہ تشریع کرنے والے نہیں ہیں جیسا کہ علمائے شیعہ کی کثیر تعداد اس کی قائل ہے (اگرچہ بعض نے انہیں حق تشریع کا حامل مانا ہے)؛ وہ صرف ہمارے لیے حد درجہ کی دقت کے ساتھ ان احکام و مفاہیم کو نقل کرتے ہیں جنہیں رسول ﷺلائے تھے وگرنہ وہ نہ ہی نبوت پر فائز ہیں اور نہ ہی قرآن کریم کی جگہ پر ہیں۔
حديث كے عمومى اسلامى دائرۃ المعارف كى تدوين
اے دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے ہمارے بھائیو! ۔۔۔آؤ! ۔۔۔ہم ایک دوسرے سے نزدیک ہوں اور ان غیر صائب خیالات کو اٹھا پھینکیں جو ہمارے ذہنوں میں سمائے ہوئے ہیں۔
مزید برآں ہماری دعوت یہ ہے کہ امامیہ، حدیث کی سنی کتب سے کسی نہ کسی شکل میں استفادہ کریں اور اہل سنت بھی حدیث کی شیعہ کتب سے کسی شکل میں استفادہ کریں، رسول اللہ ﷺسے منقول علمی وراثت کے حوالے سے ہمارے درمیان تسلسل سے جاری بیگانہ پن قابل قبول نہیں ہے۔ ہمارا یہ راسخ عقیدہ ہے کہ صحیح حدیث نبوی تمام اسلامی مذاہب کی کتب میں موجود اور بٹی ہوئی ہے اور ہم پر لازم ہے کہ ایک ٹھوس علمی منہج کے ساتھ اس کا کھوج لگائیں اور اسے ان سب کتب سے ڈھونڈ نکالیں۔
ہماری دعوت کا لب لباب یہ ہے: حدیث کے اسلامی دائرۃ المعارف مرتب کیے جائیں(جو اباضیہ اور زیدیہ جیسے تمام مسلمان فرقوں کا احاطہ کرتے ہوں) اور وہ کسی ایک مذہب سے منسوب نہ ہوں۔ اس کے بعد محققین کو یہ حق حاصل ہو گا کہ نبی ﷺسے منقول احادیث کی زیادہ سے زیادہ ممکنہ تعداد کو ہمارے سامنے پیش کرنے والے ان جوامع میں سے کسی ایسی حدیث کو اختیار کریں کہ جس کی سند اور متن کی صحت اور درستگی ثابت ہو چکی ہو۔ یہ کام (رجال، جرح و تعدیل کے کل مذہبی دائرۃ المعارف کے ضمیمے کیساتھ) اسلامی مذاہب کے اندر ایک دوسرے کی نزدیک سے شناخت پیدا کرنے کے حوالے سے ایک انتہائی اہم عنصر ثابت ہو گا۔
۴۔ تقيه اور اعتماد كا فقدان
امامیہ کے نزدیک تقیہ ایک طرح سے ان حکومتوں کے سامنے شیعہ جماعت کی حمایت کرنے کا نام ہے جو ان پر اپنا قہر ڈھاتی ہیں۔ بلاشبہہ آئمہ اہل بیتنے یہ جائز قرار دیا ہے کہ انسان نماز یا اپنے دینی فرائض کی ادائیگی ان لوگوں کے طریقہ کار کے مطابق کرے جو مذہب میں اس کے مخالف ہیں بشرطیکہ (قولا یا عملا) اپنا مذہب ظاہر کرنے کی صورت میں اسے نقصان کا سامنا ہو یا ان لوگوں کے ساتھ اس کے تعلقات خراب ہوتے ہوں۔ تقیہ کے اس مفہوم پر بہت سے علمائے مسلمین کا اتفاق ہے اگرچہ اس کی تفصیلات میں وہ باہم اختلاف رکھتے ہیں۔
مزید برآں یہ کہ ہمارے نزدیک یہ والا تقیہ اکثر اوقات ایک ایسا لائحہ عمل رہا ہے جس پر پسی ہوئی اقلیتیں عمل کرتی رہی ہیں اور عام لوگ مشکل گھڑیوں میں اس پر چلتے رہے ہیں بلکہ بہت سے لادین اور بے ایمان لوگ بھی یہ کام کر چکے ہیں۔
اس کے باوجود آج بہت سے اہل سنت کی دانست میں تقیہ کو سنی اور شیعہ کے باہمی اعتماد کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ خیال کیا جاتا ہے کیونکہ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کسی بھی شیعہ پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ آپ سے جو کچھ کہے گا وہ ہرگز سچ نہیں ہو گا کیونکہ وہ تقیہ کرتا ہے پس وہ ایسی بات کرتا ہے جو اس کے عقیدے سے میل نہیں کھاتی۔ تقیہ کے موضوع میں ابہام سے ہر طرح کے باہمی تعلقات ختم ہو سکتے ہیں کیونکہ بعد میں شیعہ اپنا باطنی مذہب پیش کرنا شروع کر دیں گے جو اس ظاہری کے علاوہ کچھ اور ہے۔ اس بات کا مطلب یہ ہوا کہ یہ مذہب نفاق کا حامل ہے اور اس کے ساتھ نہ تعاون ممکن ہے، نہ اس سے بچاؤ ممکن ہے اور نہ اس کی تصدیق کرنا ممکن ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شیعہ کافر ہیں اور اسلام کا مصنوعی لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں کہ جسے تقیہ، ہمارے سامنے بہترین زیب و زینت کے ساتھ پیش کرتا ہے۔
کچھ لوگ اسلامی رائے عامہ کے سامنے ہمیشہ اس طرح کی تصویر کشی میں مصروف رہتے ہیں جس سے اعتماد کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ حائل ہو جاتی ہے بالخصوص شیعہ امامیہ کے ساتھ۔ اس صورتحال میں ایک ایسے اسلامی معاشرے کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی جو ایک دوسرے کے ساتھ گھل مل کر رہے اور ایک دوسرے کے ساتھ مستحکم تعلقات استوار کر سکے۔
یہ کتاب ہمارے ایک پیغام پر مشتمل ہے اس لیے ہم یہاں پر علمی نقد و تبصرے اور طولانی بحثیں پیش نہیں کرنا چاہتے؛ اس کے باوجود ہمیں اجازت دیں کہ پہلے امامیہ کے یہاں تقیہ کی موجودگی کا اعتراف کریں، ہم اس کے وجود کا انکار نہیں کرتے لیکن اس سوال کے دو حصے ہیں:
ا۔ اس مسئلے کی ذمہ داری کس پر ہے؟ اور اس سے نجات کیونکر ممکن ہے؟!
ب۔ یہ امر (تقیہ) کس حد تک تمام مسلمانوں سے مذہب امامیہ کی حقیقت کو چھپا سکتا ہے؟!
تقيه پر كيوں عمل كرنا پڑا؟ اسباب كى تحليل
پہلے سوال کے جواب میں میرا خیال یہ ہے کہ کچلنے، خوف و ہراس پھیلانے اور استبداد و تشدد کی منطق جسے طول تاریخ سے عصر حاضر تک کے مسلمان حکمرانوں نے اختیار کیے رکھا؛ کا اس امر میں بہت بڑا کردار ہے کہ تقیہ، امامی اور غیر امامی کیلئے ایک طرز زندگی بن چکا ہے۔
آپ ایک ایسی جماعت کے بارے میں کیا کہیں گے جس کی مذمت کی جاتی ہو، جس کا قلع قمع کیا جاتا ہو، جس کی رائے سلب ہو چکی ہو اور جو بیان و تعبیر کی آزادی سے محروم ہو؟! اگر وہ یہ کہیں: ہم ہر صحابی کی عدالت کے قائل نہیں ہیں(بلکہ بعض صحابہ کی عدالت کو مانتے ہیں اور بعض کی نہیں) تو اسے کفر یا بدعت خیال کیا جائے گا اور ان کے خلاف قیدو بند اور قتل و غارت جیسے ہتھکنڈے استعمال کیے جائیں گے۔
اگر آپ ان کی جگہ ہوتے اور آپ کے ساتھ کئی دہائیوں اور صدیوں تک یہ سلوک کیا جاتا تو کیا تقیہ آپ کی دینی زندگی میں ایک سرمشق نہ بن جاتا؟ کیا آپ گنہگار ہیں یا وہ جابر حکومتیں کہ جنہوں نے ایک دن بھی آزادی رائے وعقیدہ، آزادی بیان، حق اختلاف، حق تنقید اور دوستانہ رقابت کو قبول نہیں کیا اور اس کام میں علماء کی ایک ٹولی جو قتل و تکفیر کے فتاوی ٰجاری کرنے کیلئے ہمہ وقت آمادہ ہوتے تھے؛ ان کی حمایت کرتی تھی۔
یہ اس طرز زندگی کی تخلیق کا سب سے نمایاں (نہ کہ اکیلا) تاریخی سبب ہے۔
میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ طول تاریخ کے شیعہ حکام عادل تھے۔ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو مذاہب اور ان کی تاریخ کی عصمت پر یقین رکھتے ہیں بلکہ میرے نزدیک امت اسلامی کی حالت زار کی اصلاح کا بنیادی عنصر مذاہب کی عصمت کے تفکر سے آزاد ہونا ہے لیکن صورتحال مختلف ہے کیونکہ اہل سنت کے عقائد اور شعائر میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے شیعہ حکام کیلئے اشتعال انگیز فرض کیا جا سکے کہ جس کو کچلنے کیلئے وہ عقیدے کے نام پر طاقت کا استعمال کریں کہ سنی کو اپنا عقیدہ مخفی کرنا پڑے۔ البتہ شیعہ کی صورتحال مختلف ہے اور اس کی شیعت کا عنوان، اہل سنت کی رائے عامہ کے اشتعال کو اپنے اندر لیے ہوئے ہے کیونکہ یہ چند عناصر کا مجموعہ ہے جن میں سرفہرست صحابہ کے بارے میں موقف ہے جو ہمارے اختلافات کا ایک بنیادی پہلو ہے؛ اس لیے کہ سنی کے امامت پر عقیدہ نہ رکھنے کو شیعہ برداشت کر سکتے ہیں اور وہ اس سے اختلاف رکھنے کے باوجود اکثر اوقات اسے ایک نقطہ نظر خیال کرتے ہیں لیکن صحابہ کے بارے میں شیعہ کے عقیدے کو بعض اہل سنت اور بعض حکام برداشت نہیں کر سکتے۔
ان ساری باتوں کا مطلب یہ ہے کہ تقیّہ کے وہم کا ازالہ آزادیوں کی بحالی اور اقلیتوں کے حقوق کو عام کرنے سے ہو گا؛ یہ ایک طرف سے اور دوسری طرف سے شیعہ کو اس کے مقابلے میں ایک اقدام کرنا ہو گا اور وہ یہ ہے کہ اپنے اردگرد کے ماحول میں زیادہ سے زیادہ گھل مل کر رہیں۔۔۔ ۔ اس طریقے سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تمام غلط تصوّرات تبدیل ہو جائیں گے۔
كيا تقيه ابهى تك شيعه كو سمجهنے كى راہ ميں ركاوٹ هے؟
دوسرے سوال کے بارے میں ہمارا خیال ہے کہ عصر حاضر میں شیعہ کے باطنی چہرے کی بات کرنا بالکل بے معنی ہے۔ شیعہ کی کتب، تالیفات اور فکری و سیاسی آرا اور ان کے داخلی تنازعات و اختلافات حتی کہ ان کی مجالس اور امامبارگاہیں وغیرہ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ذرائع ابلاغ کے غلغلوں میں دوسروں کے سامنے بہت بڑے پیمانے پر کھل کر سامنے آ چکے ہیں۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ جو شخص بھی شیعہ نقطہ نظر کو جاننا چاہتا ہو تو اس کیلئے یہ سب چیزیں بڑی آسانی سے ممکن ہیں جبکہ یہ کام، ماضی میں دشوار تھا۔
اس پر مستزاد یہ کہ اگر امامیہ کا طرز عمل سارے کا سارا تقیہ کی بنیاد پر تھا تو پھر اہل سنت نے (صدیوں پہلے سے) تبرا کی حقیقت اور خلفا وصحابہ کے بارے میں شیعہ کا موقف اور ان کے علاوہ دسیوں امور کہ جن کے بہانے شیعہ کی تذلیل و تحقیر کی جاتی ہے؛ کو کس طرح جانا؟! اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی کتابیں موجود ہیں اور ان کے مذہب اور ان کے فکری مکاتب کو مکمل آسانی اور سہولت سے جانا جا سکتا ہے بالخصوص عصر حاضر میں۔
اگر شیعہ امامیہ بھی (بالفرض) اپنا حقیقی اور مخصوص مذہب چھپانا چاہیں تو نہ یہ ممکن ہے اور نہ ہی میسّر، اس لیے کہ ایک طائرانہ نگاہ سے جستجو کرنے والے ایک سادہ ترین شخص کے سامنے بھی ان کا نقطہ نظر، مکاتب فکر، افکار اور نکات اشتراک و افتراق عیاں ہو جاتے ہیں۔ پھر ہر وقت تشیع کے سنی دنیا سے پوشیدہ کسی دوسرے چہرے کی بات کرنے کا کیا مطلب ہے؟!ان باتوں کا وقت گزر چکا ہے اور شیعہ و غیر شیعہ کی حقیقت روشنی کے زیر سایہ کھل کر سامنے آچکی ہے، ہر اہل تحقیق مختصر وقت میں ان کے مذہب کی شناخت حاصل کر سکتا ہے۔
اهل سنت اور اهل تشيع كو تقيّه كے مورد ميں دو دعوتيں
اس تناظر میں، گزشتہ مطالب کی بنیاد پر ہم یہاں پر دو دعوتیں دیں گے:
پہلی دعوت: ہم اپنے اہل سنت بھائیوں کو اس امر کا بخوبی ادراک کرنے کی دعوت دیتے ہیں کہ شیعہ امامیہ (بالخصوص آج) متعدد نظریات، مکاتب فکر اور اجتہادات رکھتے ہیں اور ان مکاتب فکر میں اختلاف موجود ہے جو ایک فطری امر ہے۔ یہ اختلاف ہر متجسس و جویا کیلئے اعلانیہ حد تک ظاہر و آشکار ہے۔ پس تقاضا یہی ہے کہ شیعہ کے خلاف حکم صادر کرتے وقت ان میں فرق کیا جائے۔
اگر کوئی شخص کسی سیٹلائٹ چینل پر آ کر ام المؤمنین حضرت عائشہ کو گالیاں دیتا ہے تو اسے تمام کے تمام شیعوں کا نقطہ نظر نہیں کہا جائے گا۔ اسی طرح کوئی سنی سیٹلائیٹ چینل پر ظاہر ہو کر شیعہ کے کفر کا حکم لگا دے تو ہم یہ نہیں کہیں گے کہ سارے اہل سنت ہماری تکفیر کرتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے حالانکہ ان کی بڑی تعداد (جیسے صوفی) قبور اور مقدس مقامات کے حوالے سے شیعوں جیسا موقف رکھتے ہیں، تو پھر میرا فرض ہے کہ میں سلفی سنی اور صوفی سنی میں فرق کروں۔ اسی طرح اہل سنت کا فرض ہے کہ مذہب کے اندر کی شیعہ جماعتوں کو ایک دوسرے سے جدا کریں۔ لہٰذا کسی مذہب کے اندر کی خاص جماعت کے جرم کو سارے مذہب پر تھوپ دینا کسی طور درست نہیں ہے۔
اگر ہم نے اس امتیاز کا خیال کر لیا تو اس سے مسلمان ممالک میں مذہبی گھٹن کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔ پس مثال کے طور پر پاکستان کے کچھ علاقوں میں شیعہ یا سنی شدت پسندی (بدیہی ہے کہ) لبنان، مصر یا مراکش کی شیعہ یا سنی ثقافت کی عکاس نہیں ہے۔
امتیاز کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ جس طرح ہم کچھ شیعہ شدت پسندوں سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ سنیت اور اہل بیت سے دشمنی رکھنے کے درمیان امتیاز کریں اور ان میں خلط ملط نہ کریں کہ وہ ہر سنی کے ناصبی اور دشمن اہل بیت ہونے کا دعویٰ کر بیٹھیں بلکہ ان کا فرض ہے کہ شخصیات اور جماعتوں میں فرق کریں؛ اسی طرح ہم اہل سنت کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ شدت پسند و تکفیری شیعہ اور اعتدال پسند و معتدل شیعہ میں فرق کریں۔
دوسری دعوت: یہ مذہب امامیہ کے پیروکاروں کیلئے ہے اور وہ یہ کہ بعض امامیہ اور ان کی شخصیات کا ابھی تک یہ گمان ہے کہ (تقیہ کے نام سے) دوسرے کو فریب دینا اور اپنے عقیدے کی نادرست تصویر کشی اب بھی ایک مفید کام ہے۔۔۔ ہمارا یہ خیال ہے کہ اس طریقہ کار کا وقت بھی گزر چکا ہے۔
دروغ گوئی کی کیا ضرورت ہے اور تمام علمائے شیعہ کو تحریف قرآن کے قول سے بری الذمہ کرنے کا کیا سبب ہے جبکہ ہمیں معلوم ہے کہ ان میں سے اکا دکا سچ مچ تحریف کے قائل ہیں اور ان کی کچھ روایات میں تحریف کا ذکر آیا ہے جیسا کہ اہل سنت کے ہاں بھی یہی صورتحال ہے؟ کیا یہ طریقہ کارمؤثر ثابت ہواہے یا یہ امامیہ کے علماء، محققین اور متکلمین کا تعارف غیر صادق کے عنوان سے کراتا ہے اور یہ کہ وہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں سے کھلواڑ کر رہے ہیں؟!
ہماری دعوت سچائی کیلئے ہے ۔۔۔ ہم سب کو آخری ممکنہ حد تک سچ بولنا چاہئیے ۔۔۔ ایسا سچ جس سے دوسرے کے جذبات مجروح نہ ہوں، ہر شیعہ وسنی اور ہر مسلمان سے یہی چیز مطلوب ہے۔
اسی طرح دوسرے سے مطلوب یہ ہے کہ وہ عقائد، تاریخ اور شریعت کے امور پر میرے اجتہاد کو تسلیم کرے اور اس سے اختلاف کے سبب، مجھے دین سے خارج کر کے معاشرتی یا سیاسی یا قانونی لحاظ سے میرے گرد گھیرا تنگ نہ کرے اور مجھے (سلامتی سے زندگی گزارنے کی خاطر) اپنے سامنے جھوٹ بولنے یا ایسا طریقہ کار اپنانے پر مجبور نہ کرے جس کی بنیاد دھوکہ دہی اور مکر پر ہو۔
پس ذمہ داری دوطرفہ ہے اور میرے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ کسی ایک فریق سے تقیہ کی گتھی سلجھانے کا مطالبہ کروں، یہ غیر حقیقی بات ہے کیونکہ یہ عقدہ دو طرفہ ہے۔ لہٰذا جب تک ہم بیک وقت دونوں طرفوں سے سنجیدہ اقدامات نہیں اٹھائیں گے اس وقت تک ہرگز اس گتھی کو سلجھانے پر قادر نہیں ہوں گے۔
یہ دعوت دوجانبہ ہے۔ ہم جہاں شیعہ امامیہ کو تقیہ کی بقایا سے آزاد ہونے کی دعوت دے رہے ہیں وہیں پر ہم اہل سنت کو بھی یہ دعوت دیتے ہیں کہ وہ جرم اور اختلاف رائے کو آپس میں خلط کرنے سے چھٹکارا حاصل کریں اور اس کا عکس بھی درست ہے۔ شاید ہم اس طریقے سے ایک دوسرے کے اسرار سے آگاہ ہو جائیں اور حقیقی تکثیریت (Real Pluralism) کے زیر سایہ زندگی بسر کرسکیں جو ایک اور دوسری رائے کا احترام کرتی ہے خواہ یہ رائے یا دوسری رائے مجھ سے کتنی ہی بعید کیوں نہ ہو؛ بشرطیکہ وہ دونوں فکریں”لا إله إلا الله محمّد رسول الله” کی چھت تلے ہوں[48]۔
۵۔ شعائر، مذهبى رسومات اور دينى مناسبتيں
ہر امّت اور ہر دین یا مذہب کے مخصوص شعائر ہوتے ہیں کہ جو معاشرے میں اس دین کو دوسرے دین سے ممتاز و نمایاں کرتے ہیں اور اس دین کواپنے ماننے والوں کے ذہنوں میں راسخ کرنے کے حوالے سے عام افکار کے مقابلے میں کہیں زیادہ کردار ادا کرتے ہیں۔ بلاشبہہطول تاریخ میں مذہب امامیہ کے یہاں معروف شعائر رہے ہیں جو غالبا درج ذیل امور میں جلوہ نما ہوتے ہیں:
۱۔ آئمہ اہل بیتکے مدینہ، کربلا، نجف، سامرا، کاظمیہ، مشہد اور دیگر مقامات پر واقع مزارات کی زیارت کرنا۔
۲۔ عاشورا اور نبی اکرم ﷺکے نواسے امام حسین بن علی بن ابی طالبکی شہادت کی مناسبت کا احیا جو ہر سال یکم سے دس محرم کے دوران کیا جاتا ہے اور اکثرو بیشتر یہ مناسبت (خواہ چھوٹے پیمانے پر ہی سہی) ماہ صفر کے آخر تک جاری رہتی ہے۔
اسی طرح کچھ اور مناسبتیں بھی ہیں مگر ان میں اس سے کم جوش و خروش دیکھنے کو ملتا ہے جیسے ۱۸ ذی الحج کے دن عید غدیرکی مناسبت، پندرہ شعبان کو امام مہدی کی ولادت اور امام علیکی شہادت جو ماہ مبارک رمضان کی ۱۹ اور ۲۱ کو ہوئی اور دیگر مناسبتیں۔
توقع یہی ہے کہ یہ دونوں مراسم اور شعائر دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کیلئے کسی قسم کی حساسیت یا مشکل پیدا نہ کریں مگر اس کے باوجود ان شعائر میں کچھ ایسے تشویش ناک عناصر موجود ہیں جنہیں (دونوں طرف کے) کچھ لوگ ایجاد کرتے ہیں یا انہیں بڑا بنا کر پیش کرتے ہیں اور اس کا ہدف یہ ہوتا ہے کہ یہ شعائر ایک مسئلہ بن کر امامیہ کے دامن گیر ہو جائیں اور انہیں دوسرے مسلمانوں سے دور کر دیں۔ افسوس کی بات ہے کہ کچھ امامیہ بھی اس کام میں ملوث ہیں اور (ہمارے نقطہ نظر سے) وہ لاشعوری طور پر مذہب کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
شيعه شعائر اور مسئله شرک
سب سے پہلی چیز جس کے بارے میں بات کی جاتی ہے اور جس کی تشہیر ہوتی ہے؛ وہ ہے شرک اور آئمہ اہل بیتکی عبادت کا مسئلہ اور یہ کہ شیعہ اپنے افعال کے ساتھ اپنے شرکیہ اور غیر توحیدی مکتب پر مہرِ تصدیق ثبت کرتے ہیں ۔۔ یہ امر ہر سال دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے اندر یہ احساس پیدا کرتا ہے کہ اسلام کو اندرونی سطح پر عقیدے کے انحراف کا سامنا ہے اور اس سے وہ اپنے شیعہ بھائیوں سے مزید دور ہوتے ہیں حالانکہ مزارات کی زیارت اہل سنت کے ہاں بھی ایک دینی رسم کے طور پر بہت زیادہ ہے۔
ہم اس موضوع کے بارے میں گفتگو کر چکے ہیں اور ہم یہاں اعتقادی بحث و تمحیص نہیں کر رہے لیکن ہماری معلومات کے مطابق کوئی بھی شیعہ آپ سے یہ نہیں کہے گا کہ ہم مشہد میں امام رضا کی زیارت پر، ان کی عبادت کی غرض سے جا رہے ہیں یا اس وجہ سے کہ وہ معبود ہیں اور اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کی جاتی ہے اور شیعہ کتب بھی یہ نہیں کہتیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ ایک مستحب عبادی عمل ہے بالکل مستحبی حج یا زیارت رسول اعظم ﷺکی طرح۔ بلاشبہہمسلمانوں کا ہر سال مکہ اور مدینہ کی طرف جانا کعبہ کی عبادت نہیں ہے بلکہ وہ اللہ کے حکم سے اس دیار کے ساتھ خاص لگاؤ کی وجہ سے ہے اور اللہ سبحانہ کی عبادت ہے۔ شیعہ کتب میں زیارت کے موضوع پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے پس آپ ان کی طرف رجوع کیجئے۔
البتہ اس مذہبی عمل کے اندر بعد میں کچھ کام رائج ہو گئے ہیں یا کچھ دہائیوں یا صدیوں سے ظاہر ہوئے ہیں، جو اس تناظر میں دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کیلئے عجیب ہیں اور وہ ہیں؛ قبروں کے سامنے سجدہ کرنا یا صاحب قبر سے دعا کرنا کہ وہ اسے شفا دے وغیرہ۔
البتہ علمائے شیعہ نے دور سے الوہیت کا منظر پیش کرنے والی ان رسموں کی وضاحت پیش کی ہے اور کہا ہے (جیسا کہ ہم نے پچھلے صفحات پر کچھ نصوص نقل کی ہیں) کہ قبر کے سامنے سجدہ کرنا؛ درحقیقت خدا کی بارگاہ میں سجدہ شکر بجا لانا ہے کہ اس نے اپنے بندے کو اس امام کی زیارت کی توفیق دی اور صاحب قبر کو پکارنا صرف اللہ کی بارگاہ میں اس سے شفاعت طلب کرنا ہے جو نہ اس کی عبادت ہے اور نہ ہی اس کی الوہیت پر اعتقاد ہے ۔۔۔۔ اور اس کے علاوہ بھی بہت سی تاویلیں پیش کی گئی ہیں۔
تاہم ہمارے نزدیک (جیسا کہ مجتہد اعظم سید بروجردی رحمۃ اللہ علیہ جیسے بعض علمائے امامیہ نے اس کی تصریح کی ہے) ان رسومات سے دستبرداری ضروری ہے کہ جو حساس ہیں اور شیعہ و تشیع کی نسبت دوسروں کی بدگمانی کی موجب ہیں بالخصوص مسلّمہ دینی نصوص میں کوئی ایسی دلیل نہیں ملتی جو انہیں واجب قرار دیتی ہو، یہ تقریبا عادات و اطوار اور آداب و رسوم ہی ہیں اور بس۔
ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ ہر اجتماعی یا کردار سے متعلق یا شعائر سے متعلق رسم جو دیگر مسلمانوں کے ذہن میں مسائل کے الجھاؤ کا سبب بنے یا ان کی شیعہ و تشیع کی نسبت بدگمانی اور تہمت زنی کی باعث بنے ۔۔۔۔؛ اس سے دستبرداری ضروری ہے مگر یہ کہ وہ صحیح اور معتبر نص کے ذریعے فقہی و حدیثی اجتہاد کہ جو علوم شرعیہ میں قابل اعتماد ہو؛ کے قواعد کی رو سے ثابت ہو جائے۔ پس خدا اس شخص پر رحم کرے جو خود کو تہمت سے بچائے۔
یہی بات بعینہ ہم اہل سنت سے بھی کہیں گے۔ پس ہر عادت یا عمل یا رسم جو دوسروں سے تعلق کے شبہ کی باعث ہو اسے ترک کرنا ضروری ہے جب تک وہ (سنی اجتہاد کی رو سے) صحیح اور معتبر دلیل سے ثابت نہ ہو جائے۔
كيا حسينى شعائر حج اور حرمين كے خلاف سازش هے؟!
شعائر کے مسئلہ میں ایک دوسرا امر ان کا عظیم الشّان طریقے سے اہتمام کرنا ہے حتی دوسرے مسلمان یہ خیال کرنے لگتے ہیں کہ امامیہ اسے فریضہ حج سے بھی زیادہ اہم اور عالی شان سمجھتے ہیں یا وہ اس سے مناسک حج کی شبیہ کا قصد کرتے ہیں یا وہ کربلا کو مکہ و مدینہ سے اہم سمجھتے ہیں یا وہ مدینہ منورہ آ کر قبرستان بقیع میں خود نبی ﷺکی نسبت اہل بیتکی زیادہ مرتبہ زیارت کرتے ہیں یا وہ بالعموم حرمین شریفین اور مسجد اقصیٰ سے رقابت کرنا چاہتے ہیں تاکہ کربلا اور نجف، اسلام کی علامت ہو جائیں نہ کہ مکہ و مدینہ اور یہ اسلامی تاریخ کے خلاف سازش ہے اور نبوت کے آثار، رسالت کی تاریخ، اسلام کے صدر اول اور ۔۔۔۔ کو محو کرنے کے مترادف ہے۔
بعض اسلامی حلقے یہ افکار پھیلا کر شیعہ کی اسلام سے اجنبیت اور مخالفت کو ثابت کر رہے ہیں کہ یہ ایک اور دین ہے جو اسلام سے مختلف ہے، اس کے اپنے اصول، شعائر اور مقدسات ہیں جنہیں وہ مسلمانوں کے بڑے مقدسات کہ جنہیں قرآن کریم نے ذکر کیا ہے؛ پر برتری دے رہے ہیں بلکہ عصر حاضر کی بعض ادبیات میں (دینِ شیعہ) کی اصطلاح بھی داخل ہو چکی ہے جس سے مقصود اس امر کو ثابت کرنا ہے کہ شیعہ، دین اسلام سے ہٹ کر کوئی الگ دین ہے۔
بعض اهل سنّت اور بعض شيعوں كا ايك خطرناک بازار ميں داخله
درحقیقت یہ بات سادہ نہیں ہے بلکہ میں پوری جرات سے کہہ سکتا ہوں کہ بعض شیعہ عملی طور پر عامۃ المسلمین کے ذہنوں میں متذکرہ بالا تصورات راسخ کرنے کی غرض سے کسی نہ کسی حد تک اس بازار میں داخل ہو چکے ہیں اور انہوں نے ایسے حدیثی متون پیش کرنے کیلئے تاریخ و روایات کی چھان بین شروع کر دی ہے جن میں کربلا کو مکہ و مدینہ پر فضیلت دی گئی ہو اور وہ ان متون کو ضعیف قرار دینے کے درپے ہیں جن میں مکہ کو زمین کے تمام حصوں سے افضل قرار دیا گیا ہے۔
اس بازار سے امامیہ بھی، چند صدیاں قبل صفوی دور میں آشنا ہوئے تھے، جہاں پر ہمیں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ امامت ایک ایسا محور ہے جس کی عظمت؛ گویا الوہیت، توحید اور نبوت سے زیادہ ہے اور امامت سے متعلقہ مسائل لاشعور میں توحید و نبوت سے مربوط مسائل پر مقدم ہیں۔
جیسا کہ ہم بارہا کہہ چکے ہیں کہ ہم اس کتاب/پیغام میں عقائدی، تاریخی یا فقہی بحث و تمحیص نہیں کر رہے لیکن (اگر قاری مجھے اجازت دے) تو میں اس حقیقت کی ایک مختلف شکل سے تفسیر کرنا چاہوں گا، ایک مختلف زاویے سے؛ پھر بطور عموم اس طرزِ تفکر پر تبصرہ کروں گا۔
مجھے جو چیز اس صورتحال کا سبب لگتی ہے، وہ یہ ہے:
۱۔ شیعہ مسلمان سینکڑوں سالوں سے مزارات کی زیارت سے یا محروم ہیں اور یا مزارات کے اندر پابندیوں کا شکار ہیں۔ اسی طرح عاشورا وغیرہ جیسی مناسبتوں کے حوالے سے ہے لیکن وہ حج سے محروم نہیں ہوئے اور قدرتی بات ہے کہ جب آپ کو کسی چیز سے روکا جائے (جیسا کہ عراق کے اندر سابق بعثی دور میں اور عثمانی دور حکومت کے دوران شام میں عام شعائر کی رسومات پر سخت پابندی تھی) تو پھر جب آپ کو موقع ملے گا تو آپ اس چیز کی اہمیت پر پوری توجہ مرکوز کریں گے اور اسے حد درجہ اہمیت دیں گے۔
اپنے تئیں میرا خیال ہے کہ عصر حاضر میں ان شعائر (از قبیل زیارت۔۔۔) کے بڑے پیمانے پر پھیلنے میں ان پابندیوں کے واضح اثرات ہیں۔
۲۔ مسلمان ممالک پر منڈلانے والی مذہبی کشیدگی کا مذہبی اجتہادات اور فرقہ وارانہ صف بندیوں میں بہت بڑا کردار ہے۔ ہر فرقے کی کوشش ہوتی ہے کہ فرقہ واریت کے کھلے ماحول میں اپنے مذہبی رجحان کے موافق ان امتیازی عناصر کو ظاہر کرے جن سے وہ دوسرے سے الگ نظر آئے۔ اسی چیز نے دور حاضر میں ان شعائر کو بری طرح گھائل کر دیا ہے:
بعض اوقات مذہبی اعتبار سے امن و امان [49] کے احساس کی جہت سے اور ذات، تشخص اور مذہبی شناخت میں زیادہ سے زیادہ گھل مل جانے اور دوسرے کے مقابلے میں اندرونی وحدت و ہم آہنگی کی جہت سے۔
اور کبھی اس پوشیدہ رغبت کے بموجب کہ جس کی رو سے انسان دوسرے کو(مرعوب کرنے کیلئے) اس کے سامنے اپنی طاقت کی بھرپور نمائش کرتا ہے ۔ پس اس اعتبار سے یہ اجتماع دوسرےکے سامنے طاقت کاعظیم مظاہرہ ثابت ہوگا اور خطے میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے کیلئے ایک گروہ کو اس کی ضرورت ہے۔
اس کے علاوہ سیاسی مصلحتیں بھی درپیش حالات میں اس قسم کی صورتحال پیدا کر دیتی ہیں۔
اچها، عملى اقدام كيا هے؟
ہمارے نزدیک کئی محاذوں پر کام کی ضرورت ہے:
ا۔ خطّے میں فرقہ وارانہ کشیدگی کی شدت و حدت میں کمی کی جائے تاکہ یہ اسے ختم کرنے کا مقدمہ ثابت ہو اور یہ ایک دینی، سیاسی، تبلیغی اور ثقافتی ذمہ داری ہے۔
ب۔ سیاسی قوتوں کو مسلکی اور دینی مسائل سے دور رکھنے کی سعی کی جائے جو کہ علمائے دین کی ذمہ داری ہے۔
ج۔ اہل سنت کا مذکورہ بالا شعائر پر اپنے حملے کم کرنا یا روکنا کیونکہ مسلکی ماحول میں رہ کر کسی مذہب کو نشانہ بنانے کا نتیجہ مذہبی رسومات کے اندر شد و مد کے سوا کچھ نہیں نکلے گا۔
د۔ شیعہ علماء ، نبی کریم ﷺ کی سیرت اور مایہ ناز اسلامی تاریخ پر وسیع نگاہ کے ساتھ شیعہ عوام کے سامنے مسائل کی وضاحت کریں اور مکہ و مدینہ کی عظمت کے حوالے سے موجود کچھ نادرست تصورات کو ختم کریں اور انہیں مذہبی شعائر کی سرعام نیلامی اور افراط و تفریط سے دور رکھیں اور خاص و ممتاز عناصر کی مصلحت کیلئے مسلمانوں کے ساتھ مشترک عناصر کو فراموش نہ کریں۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم سب مل کر ان عناصر اربعہ کی فراہمی کیلئے کوشش کریں تو غیر صائب تصویر زائل ہو جائے گی اور دونوں طرف کے شدت پسندوں کو موقع ہاتھ نہیں لگے گا اور یہ شعائر نبی و اہل بیت سے محبت کے خوبصورت مظہر بن جائیں گے اور یہ ہرگز کوئی خوف یا وہم کا باعث نہیں ہوں گےحتی اگر اس میں سالانہ کئی ملین افراد بھی شرکت کریں بلکہ اس کے برعکس یہ اہل بیت نبی سے صادقانہ اور مخلصانہ محبت کی عملی تعبیر قرار پائیں گے کہ جن کی محبت اور تعظیم پر تمام مسلمان مسلمہ طور پر متفق ہیں۔
اس پر مستزاد یہ کہ ہم تمام مسلمانوں کو عاشورا اور کربلا میں امام حسین کی زیارت کے احیا میں شرکت کی دعوت دیتے ہیں کیونکہ امام حسین صرف شیعہ کے نہیں ہیں بلکہ وہ تمام مسلمانوں کے ہیں بلکہ ہر آزاد اور شریف انسان کے ہیں۔ اس طریقے سے عاشورا کا قضیہ ایک اسلامی قضیہ بن کر باہمی کشمکش، تصادم اور مخالفت کی علامت بننے کی بجائے مسلمانوں کے باہمی قرب کا عکاس ہو جائے گا۔
قمه زنى جيسے بعض شعائر كى حقيقت كيا هے؟
شعائر کے معاملے میں تیسرا امر کچھ ایسی رسومات ہیں جو عام مسلمانوں (اور غیر مسلمین) کی شیعہ امامیہ سے نفرت کی موجب ہیں یا کم از کم ان رسومات پر سوالیہ نشان کھڑا کیا جاتا ہے جیسے قمہ زنی (سر پر تلواریں مارنا)، دہکتے کوئلوں اور آگ پر چلنا، مخصوص زنجیروں کے ساتھ جسم کو جکڑنا، کسی نہ کسی انداز سے خون بہانا، مزارات کے سامنے جتھے بنا کر کتوں کی طرح چلتے ہوئے اندر داخل ہونا، بدن پر تالے ڈالنا، اس قدر زور سے پیٹنا کہ خون بہنے لگے، بعض اوقات برہنگی سے شباہت، اپنی ذات کی ان الفاظ سے توصیف کرنا کہ میں آئمہ کا کتا ہوں یا حضرت رقیہ کا کتا ہوں یا حضرت زہرا کا کتا ہوں اور ایسے تخیلی انداز میں بعض قصیدے لکھنا کہ جو کبھی تو اہل بیتکی شان کے منافی ہوں اور بعض اوقات دینی عقائد سے منافات رکھتے ہوں۔
یہ رسمیں کہ جن کے بارے میں خصوصیت کے ساتھ کوئی معتبر دینی نصوص نہیں ملتیں اور یہ صرف درد و غم کے اظہار کی انسانی تعبیریں اور بین القومی عادات ہیں؛ آج اس عظیم یاد کے احیا کی شائستہ ترجمانی نہیں کر رہیں۔ بجائے یہ کہ یہ مناسبتیں ظلم اور معاشرتی و سیاسی و مالی و ادارتی فساد سے مقابلے اور حق، عدالت، انقلاب، ظلم کے بائیکاٹ، باہمی تعاون، صبر، توکل، شہادت، ثابت قدمی، عزم راسخ وغیرہ جیسی قدروں کی تقویت کا اجتماع ہوں؛ ایک بالکل مختلف صورت میں ڈھل چکی ہیں۔
اس لیے ہم ان شیعوں اورسنیوں کے ہم نوا ہیں جو ان رسومات کو ترک کرنے اور اس پاکیزہ دینی عمل میں دوبارہ تازہ روح پھونکنے کے داعی ہیں تاکہ یہ ایک ایسا مینار ہو جائے جو دلوں کو ہدایت، عقول کو بصیرت اور نفوس کو عزم و ارادے سے نوازے۔
ہم ان سارے افعال کو مورد تائید نہیں سمجھتے اور شعائر میں اصلاح کے ساتھ ساتھ اصل اور ثابت شدہ اعمال کی طرف رجوع کی دعوت دیتے ہیں جو یہ ہیں: زیارت، گریہ و زاری، ان ہستیوں کے امر اور علوم کا احیا، ان کے مصائب کو یاد کرنا اور ان کی مودت۔ اس مقام پر علماء ، فقہا، دینی شخصیات، تمام اہل علم، اہل کلمہ و قلم اور صاحبان نظر کی ذمہ داری نمایاں ہوتی ہے۔
بعض شيعه اور اهل سنّت كى جانب سے تشيع كى تحقير كا مسئله
تاہم جو کچھ بھی ہو، یہ سزاوار نہیں ہے کہ ان رسومات کی وجہ سے (اہل سنت اور دوسرے لوگ بلکہ بعض شیعہ) مسلمان بھائی تشیع کی تحقیر کریں۔ تشیع کے دوسرے بہت سے مظاہر ہیں کہ جنہیں ایسے کاموں کی وجہ سے اس کے خلاف حکم لگانے سے پہلے مدنظر رکھنا چاہئیے۔
تشیع عمل، عطا، جہاد، معرفت، نبی و اہل بیت سے محبت اور اسلام و اہل اسلام کے دفاع کی تاریخ سے عبارت ہے۔ یہ تشیع ہی ہے جس نے خاص طور پر اس ماڈرن دور کے اندر ممتاز شخصیات، علماء، انقلابی قائدین اور مفکرین پیدا کیے ہیں اور الحاد و مغربی یلغار کا مقابلہ کیا ہے اور امت کے دشمنوں بالخصوص ظالم صیہونی دشمن کے ساتھ جنگ کی ہے اور شہید دئیے ہیں، عراق کے شیعہ علماء نے فتوے جاری کیے تھے کہ غیر مسلم ۔۔۔ دشمنوں کے مقابلے میں عثمانی حکومت کی مدد کی جائے۔
لہٰذا یہ درست نہیں ہے کہ میں اس چہرے کو بھلا کر صرف ان بعض شعائر کو سامنے لاؤں جنہیں کچھ شیعہ انجام دیتے ہیں نہ کہ سب کے سب اور ان شعائر کی وجہ سے اتنے بڑے اور مستحکم مذہب کے خلاف ادھر اُدھر کی باتیں کر کے اس پر کیچڑ اچھالنا شروع کر دوں۔
۶۔ نكاحِ موقت يا نكاح متعه
امامیہ اور دیگر مسلمانوں کے درمیان فقہی اختلافات بہت زیادہ ہیں لیکن (جیسا کہ آیت اللہ سبحانی کے بقول مجتہد اعظم سید بروجردی فرمایا کرتے تھے) دوسرے فقہی مذاہب و مکاتب کے فقہاء میں جو داخلی اختلاف ہے وہ شیعہ اور سنی کے باہمی اختلاف سے ہرگز کم تر نہیں ہے۔ مذاہب کے درمیان فقہی اختلاف بنیادی طور پر نہ جرم ہے اور نہ ہی ایسا گناہ جس کو ہم کسی ایک یا دوسرے مذہب سے نتھی کریں۔ امامیہ کا کوئی ایسا فقہی نظریہ نہیں ہے جو معروف اسلامی فقہی مذاہب سے موافق نہ ہو سوائے شاذ و نادر نظریات کے۔ یہ مبالغہ نہیں ہے بلکہ سید بروجردی (رہ) کا نقطہ نظر ہے جو انہوں نے شیخ طوسی کی کتاب “الخلاف” کی تحقیق کے وقت فقہ مقارن میں طویل تجربہ رکھنے کے بعد اختیار کیا ہے۔
ہم بیسویں صدی کے دوران فقہ و شرعی علوم میں ایک دوسرے کے تجربات سے آشنائی اور ان سے استفادہ کرنے کی سعی کے حوالے سے (شیعہ و اہل سنت) دونوں کی طرف سے بہت اچھے مثبت اقدامات کو دیکھ چکے ہیں کہ جن کے بارے میں یہاں پر طولانی گفتگو کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے ہم فقہی اختلاف کے مسئلہ پر ہرگز توقف نہیں کریں گے کیونکہ یہ ایک طبیعی چیز ہے۔
البتہ فقہی اختلاف میں کچھ ایسے عنوان ہیں جن کے ساتھ (افسوس سے کہنا پڑتا ہے) درست معاملہ نہیں کیا گیا اور ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم اس ناروا سلوک کی اصلاح کریں۔ جیسے آذان و اقامت، ہاتھ باندھنے، نماز میں آمین کہنے، اوقات نماز، جمع بین صلاتین اور اس کے علاوہ دیگر مسائل کہ جن میں ہم غور نہیں کرتے؛ میں اختلافات کا معاملہ ہے۔
مجمع اسلامى فقہه مقارن كى تاسيس كى تجويز
ہماری تجویز ہے کہ فقہ مقارن کا ایک ایسا ادارہ تشکیل دیا جائے جو اہل سنت و اہل تشیع کے تمام مذاہب اباضیہ وغیرہ؛ کے فقہاء پر مشتمل ہو اور اختلافی فقہی مسائل اور دیگر مسائل کی تحقیق کرے بالخصوص جدید مسائل یا فقہ نوازل (ایسے مسائل جو اس سے پہلے امت کو پیش نہ آئے ہوں) کی چھان بین ہو تاکہ ایک دوسرے سے زیادہ نزدیک و قریب فقہی نتائج سامنے آئیں اور ہم ایک دوسرے کے فقہی اجتہاد کی روش کو قریب سے جان سکیں تاکہ یہ علمی قربت کا ایک دوسرا مقدمہ بن سکے۔ کم از کم اسلامی تعاون تنظیم (OIC)، کے ماتحت مجمع فقہ اسلامی کی ترقی کیلئے انتھک اور سنجیدہ کام کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے مطلوبہ اہداف کو احسن انداز سے پورا کر سکے۔
البتہ میں یہاں جس مسئلے کو انتخاب کر رہا ہوں اس کا ربط اخلاقی پہلو سے ہے اور اس اخلاقی تصویر کشی سے ہے جو عام اسلامی ماحول میں شیعہ امامیہ سے متعلق کی جاتی ہے کیونکہ جو چیز اخلاقی تصویر کشی سے مربوط ہے وہ کسی بھی دوسرے تفصیلی فقہی اختلاف سے مختلف ہے اس لیے کہ یہ بعض اوقات ایسے مواقع پر پیدا ہو جانے والی نفرت کے نتیجے میں دو طرفہ تعلقات کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔
وہ موضوع ہے نکاح موقّت یا نکاح متعہ یا نکاح منقطع کا؛ جس کیلئے خیال کیا جاتا ہے یا ہم میں سے بعض کے سامنے یہ تصویر کشی کی جاتی ہے کہ یہ نکاح، زنا جیسے جرم کو قانونی حیثیت دینے کے مترادف ہے اور یہ اخلاقی بے راہروی اور زن ومرد کے درمیان آزاد تعلقات کا جواز فراہم کرنا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ امامیہ (اس پس منظر کے اعتبار سے) ایک ایسی جماعت قرار پائیں گے جن کے یہاں اخلاقی عفت مسخ ہو چکی ہے اور ان کی عورتیں ان کے مردوں پر حلال ہیں اور اس سے ملتی جلتی باتیں جو ہم ادھر اُدھر سے سنتے ہیں۔
میں تاریخی و فقہی بحث میں بھی نہیں پڑنا چاہتا کہ مسلمانوں کا اس شادی کے شرعی جوازپر اتفاق ہے۔ البتہ اختلاف اس بات میں ہے کہ کیا یہ منسوخ ہو چکا ہے یا یہ ایک محدود پیمانے کا حکم ہے جو خاص حالتِ جنگ سے مربوط ہے اور یہ اختلاف (جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں) خود صحابہ و تابعین کے درمیان ہوا تھا اور وہ اس مسئلے میں متعدد مذاہب میں بٹ گئے تھے اور جلیل القدر صحابی عبد اللہ بن عباس اور ان کے تابعین کے مذہب سے نکاح متعہ کی حلیت معلوم ہوتی ہے۔
امامیہ (اپنے آئمہ اہل بیت کے اجماع کی پیروی کرتے ہوئے) نکاح موقّت کو حلال اور غیر منسوخ سمجھتے ہیں بلکہ ان کے نزدیک یہ شادی ہماری بہت سی موجودہ مشکلات کے حل کی کنجی ہے؛ اس کی دلیل یہ ہے کہ کچھ اہل سنت فقہاء نے عصر حاضر میں اسلامی دنیا کے اندر رہن سہن اور شادی بیاہ کی مشکلات کے نتیجے میں بلکہ شرق و غرب میں مقیم مہاجرین کے حالات کے پیش نظر اسی سے ایک ملتا جلتا حل پیش کیا ہے۔
ہمیں انصاف پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شرق و غرب کے شیعہ ممالک میں جا کر دیکھنا چاہئیے کہ کیا ہمیں کوئی اخلاقی انحطاط دیکھنے کو ملتا ہے سوائے عام لوگوں کے راہ شریعت سے انحراف کے جو دیگر مسلمان ممالک میں بھی موجود ہے؟ !
ان کے یہاں حجاب واجب ہے، نامحرم سے ہاتھ ملانا حرام ہے، مرد کا عورت کو چھونا حرام ہے، دیکھنا حرام ہے ۔۔۔ ۔ یہ شیعہ کتب اور شیعت کے پیروکاروں کی روز مرہ کی زندگی اس پر شاہد ہیں اور کوئی بھی شخص (کسی بھی طریقے سے آ کر) اس چیز کا اطمینان حاصل کر سکتا ہے اور اپنی آنکھوں سے دیندار شیعوں کی جانب سے ان فقہی تعلیمات پر سختی سے کاربند رہنے کا مشاہدہ کر سکتا ہے جن کے بارے میں علمائے امامیہ نے فتاوی ٰ جاری کیے ہیں۔
آخر نكاحِ موقّت كى داستان كيا هے؟! اور اس كى شرعى صورت كيا هے؟!
یہ معمولی سے فرق کے ساتھ دائمی نکاح کی طرح کا ایک نکاح ہے کہ جس میں (دائمی نکاح کی طرح) قصد، اختیار، باہمی رضامندی اور دیگر صفات کی شرط ہے کہ جنہیں میاں بیوی میں پیش نظر رکھا جاتا ہے جیسے یہ کہ عورت، مرد پر نسب، صہر (دامادی)، رضاعت یا کسی دوسرے شخص کے ساتھ نکاح کی وجہ سے حرام نہ ہو۔
اس نکاح پر وہ تمام احکام مترتب ہوتے ہیں جو دائمی نکاح پر مترتب ہوتے ہیں جیسے مہر اور صہر، نسب اور رضاعت کے سبب قرابت۔ اسی طرح قرابت کے آثار یعنی اولاد کا نان و نفقہ، ولایت اور حضانت؛ اولاد و اقارب کے درمیان وراثت اور صلہ رحم ۔۔۔ ۔ یہ مکمل طور پر میاں بیوی والا رابطہ ہے جس کے لیے شرعی عدالتوں میں قانون سازی کی جا سکتی ہے اور عدالتوں سے اس کی تصدیق کرائی جا سکتی ہے۔
ساری بات یہ ہے کہ نکاح منقطع، دائمی نکاح سے درج ذیل امور میں مختلف ہے:
۱۔ یہ زمانی مدت میں محدود ہے، ۲۔ اس میں شوہر پر بیوی کا نان و نفقہ واجب نہیں ہے، ۳۔ اس میں جدائی طلاق سے نہیں ہو گی بلکہ پہلے سے مقرر کردہ مدت کے ختم ہونے پر یا شوہر کی طرف سے بیوی کو مدت بخش دینے پر ہو گی، ۴۔ اس کی عدت دو حیض کے برابر ہے نہ کہ اس سے زیادہ، ۵۔ اس میں میاں بیوی ایک دوسرے کے وارث نہیں بنتے۔
اگر ہم ان فروق و اختلافی امور کی تحلیل کریں تو ہم دیکھیں گے کہ یہ اس نکاح کی غرض و غایت سے بہت زیادہ ہم آہنگ ہیں۔ اس کی غرض یہ ہے کہ معاشی دباؤ کے نتیجے میں دائمی نکاح سے شہوت کو پورا کرنے پر قادر نہ ہونے کی صورت میں شرعی طریقے سے شہوت کو پورا کیا جائے۔ لہٰذا اس میں عقد کے دوام اور نان و نفقہ کو ساقط کر دیا گیا ہے۔
نکاح منقطع کا مطلب بغیر شرعی ضوابط کے کسی بھی مرد کا کسی بھی عورت سے وصال نہیں ہے بلکہ اس سے مراد وہی ہے جو نکاح دائم سے ہے صرف فرق یہ ہے کہ اس میں وقتی ضرورت کو برطرف کیا جاتا ہے۔ پس جس طرح اسلام نے صحابہ کو شدید دباؤ کے نتیجے میں اس وقت نکاح موقت کی اجازت دی تھی اسی طرح اسلام تمام مسلمین کی حالت کو مد نظر رکھتا ہے اور انہیں اجازت دیتا ہے۔ اگر کوئی نکاح منقطع سے غلط فائدہ اٹھاتا ہے تو بہت سے لوگ نکاح دائمی، ایک سے زیادہ شادیوں اور مرد کے پاس حق طلاق ہونے کا بھی غلط استعمال کرتے ہیں۔ پس حق کو استعمال کرنے میں لاپرواہی برتنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان اپنے اصل حق کو سلب کر دے جو اس کیلئے ثابت ہے ورنہ تقریبا کوئی بھی حق ثابت نہیں ہو سکے گا۔
اسی لیے ہم (ایک جہت سے) اپیل کرتے ہیں کہ اس نکاح کو ایک قابل احترام فقہی اجتہاد کے طور پر لیا جائے جیسا کہ مثال کے طور پر نکاح مسیار والا معاملہ بھی یہی ہے اور یہ کہ اس کی غیر اخلاقی صورت پیش کرنے سے گریز کیا جائے۔ اسی طرح ہم (دوسری جہت سے) یہ تشویق و ترغیب کریں گے کہ جہاں کہیں ممکن ہو اسے سرکاری اداروں میں قانونی حیثیت دی جائے اور اسے قومی سطح پر مذہبی رنگ دیتے ہوئے شیعہ سے منسوب نہ کیا جائے؛ گویا یہ محض خلیفہ دوم سے دشمنی کی وجہ سے ہے کیونکہ انہوں نے متعہ سے منع کیا تھا۔ ایسا نہیں ہے بلکہ یہ شرعی و اسلامی قانون ہے کہ جسے عصر حاضر میں زندگی کی مشکلات اور زن و مرد کی نفسیاتی اور جسمانی ضروریات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ایک شرعی حل کے عنوان سے دیکھا جا سکتا ہے۔
اگر ہم اس نکاح کو درست طریقے سے سمجھ سکیں اور ان بعض کوششوں سے کنارہ کشی کر لیں جو اس کی حیثیت و اعتبار کو ختم کرنے کے درپے ہیں؛ تو ہم اس میں اخلاقی گراوٹ کے توہم کی بجائے ایسے بہت سے روشن نکات پائیں گے جن کے ذریعے ہم آج کی بے تحاشا اخلاقی بے راہروی کا سماجی سطح پر مقابلہ کر سکتے ہیں۔
نکاح موقت کی اجازت اسی رو سے ہے ورنہ شیعہ فقہ ایک ایسی فقہ ہے جو مرد اور عورت کے تعلقات کے حوالے سے نسبتا سخت ہے کہ جس میں غیر محرم کی طرف نگاہ کرنا حرام ہے، اسی طرح لمس کرنا اور مصافحہ وغیرہ بھی حرام ہیں۔
۷۔ شيعت كى لهر يا شيعه کاسنّى عقائد كے امن واستحكام كو سبوتاژ كرنا
اس بات نے حالیہ برسوں میں ہم مسلمانوں کے شیعہ سنی تعلقات میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے اور یہ امر اس بات کو ہوا دینے کا موجب بنا ہے کہ شیعہ، گزشتہ تین دہائیوں کے دوران حاصل کی جانے والی اپنی سیاسی اور جہادی کامیابیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اہل سنت کے درمیان اپنے مذہب کی نشر و اشاعت کی کوشش کر رہے ہیں۔
اہل سنت فریق یہ سمجھتا ہے کہ ایک یکسر مختلف ماحول میں تشیع کی نشرو اشاعت اہل سنت معاشروں کی عقائدی ہم آہنگی کو ٹھیس پہنچانے کی باعث ہے۔ اس لیے دینی و سماجی خلیج حائل کرنے سے اسلامی معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ لہٰذا مذہبی دعوت و تبلیغ معاشرے کی یکپارچگی کو پارہ پارہ کر سکتی ہے اور سنی اکثریتی علاقوں کے امن و سکون کو نشانہ بنا سکتی ہے۔
شيعت كى لهر سے متعلق سنى خدشات كو سمجهنے كى ضرورت
اس تشویش کو سمجھنا ضروری ہے جس سے پہلے درجہ پر کچھ اہل سنت علماء دوچار ہیں جب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ ان کی کمیونٹی سنیت سے پلٹ کر شیعت کی طرف مائل ہو رہی ہے۔ اس بات سے میرا یہ مقصد نہیں ہے کہ اس بحث میں پڑ جاؤں کہ اس معاملے کو بڑا بنا کر پیش کیا گیا ہے یا نہیں؟! اور کیا سچ مچ سنی دنیا کے اندر تشیع کو پھیلانے کے حوالے سے کوئی سازش تیار کی گئی ہے یا نہیں؟! اور کیا شیعہ حکومتیں اس سازش کی پشت پناہی کر رہی ہیں یا یہ پراکندہ سول سرگرمیاں ہیں جو کسی بڑے سیاسی منصوبے سے عبارت نہیں ہیں؟! اور کیا یہ معاملہ انتباہ عام کے اعلان کی خطرناک حد تک پہنچ چکا ہے یا نہیں؟!
یہ ایک لمبی بحث ہے جس کی یہاں پر گنجائش نہیں ہے اور میں اعتراف کرتا ہوں کہ کچھ شیعہ گروہ تشیع کی نشر و اشاعت کیلئے کام کر رہے ہیں؛ اس کے باوجود میں اپنی ذاتی معلومات کی روشنی میں مطمئن ہوں کہ یہ موضوع اس قدر وسیع نہیں ہے کہ جس قدر اس کی ترویج کی جاتی ہے اور یہ مسئلہ اس حوالے سے جو کچھ کہا جاتا ہے اور نشر کیا جاتا ہے؛ کی نسبت بہت محدود ہے اور اس موضوع کو بڑا بنا کر پیش کرنا خطے میں موجود مذہبی تشویق و تخویف کے عمل کا ایک حصہ ہے اور یہ کہ اہل سنت کی جانب سے بھی اس حوالے سے ایک خاص پالیسی موجود ہے حتی بعض ایسے ممالک میں بھی کہ جن میں اہل تشیع کی اکثریت ہے۔
جس طرح اہل سنت میں سے بہت سے تعلیم یافتہ افراد اور نمایاں شخصیات شیعہ مذہب کو قبول کر چکے ہیں اسی طرح سب جانتے ہیں کہ حالیہ دہائیوں میں متعدد پڑھے لکھے شیعہ اور ان کی کچھ شخصیات سنی مذہب قبول کر چکے ہیں۔
اسی طرح میں اعتراف کرتا ہوں کہ کسی ملک میں تشیع کا پھیلنا؛ بعض اوقات اس ملک کیلئے باعث تشویش ہوتا ہے کیونکہ انہیں یہ خوف ہوتا ہے کہ ان شیعہ جماعتوں کو اسلامی دنیا کے کچھ ممالک اور سیاسی قوتیں مخصوص سیاسی مصلحتوں کیلئے استعمال کر سکتے ہیں۔ بعینہ یہی صورتحال بعض شیعہ یا مخلوط ممالک میں سنیّت کے پھیلنے میں بھی ہے۔
راہ حل كيا هے؟
بہرحال گزشتہ مطالب کو مد نظر رکھتے ہوئے راہ حل تک پہنچنے کی سعی و کوشش کے حوالے سے میرے لیے درج ذیل باتیں کہنا ممکن ہے:
هر مسلمان كو اپنے افكار كى نشر و اشاعت كا حق هے اور دوسروں كو يه حق هے كه اس كے ساته تنقيدی مذاكرہ كريں
۱۔ ہر انسان کا حق ہے کہ وہ مسلمانوں کو ان چیزوں کی دعوت دے جنہیں وہ فکری و عملی دونوں مسائل میں ہدایت، حق اور صواب سمجھتا ہے۔ یہ امر بالمعروف، نہی عن المنکر، دعوت الی الخیر، بیان حق اور اس جیسے دیگر مسلمہ الٰہی مفاہیم کے فرائض میں سے ہے۔ یہ حق بنیادی طور پر سنی اور شیعہ کیلئے ایک ساتھ ثابت ہے اور اسلامی شریعت نے اس کی ضمانت دی ہے بلکہ اس پر یہ واجب قرار دیا ہے۔
پس یہ کوئی گناہ نہیں ہے کہ انسان نظریاتی و عملی اعتبار سے مسلمانوں کے اجتہادات کے سائے میں جس کو وہ حق سمجھتا ہے؛ اس کی دعوت دے بلکہ یہ اس کےاسلام، عقائد اور شریعت کے مسائل پر عملی ایمان سے عبارت ہے۔ یہ ہرگز جرم نہیں ہے نہ شیعہ آبادیوں میں سنی کی نسبت سے اور نہ سنی آبادیوں میں شیعہ کی نسبت سے، نہ شیعہ ممالک میں اباضی کی نسبت سے اور نہ زیدی ممالک میں امامیہ کی نسبت سے و علی ھذا القیاس۔
اگر آپ کے نزدیک شیعہ اپنے عقیدے میں خطا کا شکار ہے تو وہ خود کو صائب اور آپ کو خطا پر سمجھتا ہے اور یہ منطقی بات ہے کہ وہ اپنے لیے لوگوں کو اس اجتہاد کی طرف دعوت دینے کا جواز گھڑ لیتا ہے جسے وہ عقائد و شرعی فروعات میں درست سمجھتا ہے۔ یہ بالکل فقہاء و مجتہدین کے اختلاف کی مثل ہے۔
دعوت و تبليغ كے حوالے سے اسلامى مذاهب كے مابين امتياز
۲۔ میرا یہ حق ہے کہ میں یہ سوال صراحت سے پوچھوں (کیونکہ صادقانہ صراحت اور وضاحت ہی مسئلہ کے حل کی کنجی ہے): کیا وجہ ہے کہ مسلم ممالک میں بے تحاشا مالی امداد کے ذریعے سلفی مذہب کی نشر و اشاعت کو عقائد پر حملے سے تعبیر نہیں کیا جاتا بلکہ اسے ایک ایسی دینی دعوت کہہ دیا جاتا ہے جس کا اپنا نقطہ نظر ہے؛ جبکہ مذہب امامیہ کی محدود نشر و اشاعت، اسلام و مسلمین کے حق میں جرم ہے؟!
میں صرف دینی لحاظ سے بات کر رہا ہوں حالانکہ سیاسی اعتبار سے بھی یہی کچھ ہے۔ لہٰذا جس طرح تشیع کے پھیلنے کے خطرے کی تشریح اس طرح سے کرنا ممکن ہے کہ یہ فلاں شیعہ حکومت کے اثر و رسوخ کو پھیلانا ہے اسی طرح ممکن ہے کہ سلفیت کے فروغ کے خطرے کی یہ تفسیر کی جائے کہ یہ فلاں خاص اور معروف سنی حکومت کے اثر ورسوخ کو بڑھانا ہے۔۔۔ لیکن میں سیاسی بات چیت میں داخل نہیں ہونا چاہتا اور صرف دینی اعتبار سے گفتگو کر رہا ہوں۔
میرے پاس یہاں پر سلفی مذہب اور امامی مذہب کے مابین فرق کی کوئی تشریح نہیں ہے سوائے اس بات کے کہ شیعہ کافر ہیں، ان کے مذہب کی نشر و اشاعت کفر کی نشر و اشاعت ہے اور گویا یہ ملت سے خارج ہیں۔ ہم گزشتہ صفحات پر یہ کہہ چکے ہیں کہ تکفیر کے مسئلے کو جڑوں سے حل کرنے کی ضرورت ہے ورنہ داخلی سطح پر اسلامی قربت کی بات بے معنی ہو جائے گی۔
ہم یہ صادقانہ دعوت دیتے ہیں کہ سنی سوسائٹیاں اور انسٹی ٹیوٹ شیعہ کے حوالے سے اپنے نقطہ نظر پر نظر ثانی کریں۔ جب وہ عقائد میں ماتریدیہ، معتزلہ، اشاعرہ، سلفیہ اور صوفیا جیسے اسلامی مذاہب پر مشتمل ہیں اور فقہ و فروع میں حنفیوں، شافعیوں، ظاہریوں، مالکیوں اور حنبلیوں میں بٹے ہوئے ہیں تو پھر شیعوں اور ان اعتقادی و فقہی مذاہب کے مابین کیوں فرق روا رکھا جاتا ہے کہ جن کی آج پوری سنی دنیا میں اشاعت کی جا رہی ہے؟!
آخر کیوں کسی شخص کے (صوفی رہنے کے بعد) سلفی ہو جانے کو مصیبت نہیں شمار کیا جاتا جبکہ اس کا شیعہ اور امامیہ ہو جانا دینی سطح پر بہت بڑا مسئلہ ہے؟! اور کیوں فروعات میں شافعی کا مالکی ہو جانا کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جس پر رائے عامہ مشتعل ہو جبکہ مالکی کا جعفری ہو جانا؛ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر اعتراض کیا جاتا ہے؟!
یا ہم اپنی ذات کے ساتھ مخلص ہوں اور ایک اسلامی مذہب کے عنوان سے اس مذہب کے ساتھ تعامل میں سنجیدگی سے کام کریں خواہ ہماری رائے یہ بھی کیوں نہ ہو کہ وہ کلامی و شرعی اجتہاد میں خطا پر ہیں اور یا انہیں مسلمان مذہب قرار دے کر خود کو اور دوسروں کو دھوکے میں نہ رکھیں کہ ایک طرف سے انہیں مکہ و مدینہ میں داخلے کی اجازت دی جاتی ہے جبکہ دوسری طرف سے ان کے ساتھ کفار والا معاملہ کیا جاتا ہے!
اگر مسئلہ بدعت کا ہے تو مجھے کوئی کسی ایسے مذہب کا بتا دے جس کے عقائد و فروع کے کسی نہ کسی مورد کو دیگر مذاہب بدعت نہیں سمجھتے!
آئیے! ہم اپنے عیوب کو آشکار اور مافی الضمیر کا اظہار کریں اور خود کے ساتھ مخلص ہوں۔
میں کہتا ہوں: شیعہ اور اہل سنت ایک ساتھ اور شانہ بشانہ آگے بڑھیں، دشمنی و عداوت اور گالم گلوچ سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔
امت ميں الحادی اور لادينى فكر كے فروغ كے مقابلے ميں هم کهاں کهڑے هيں؟!
سب سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ ہم شیعہ ممالک میں سنی مذہب یا سنی ممالک میں شیعہ مذہب کی دعوت سے خوفزدہ ہوتے ہیں لیکن ہم مغربی فکر کی دعوت سے حتی ان مسائل میں بھی خوفزدہ نہیں ہوتے جن کے خلافِ دین و شریعت ہونے پر ہم سب کا اتفاق ہے۔ وہاں پر ہم فکری نبرد کو ترجیح دیتے ہیں اور کسی قسم کی اشتعال انگیزی، قید و بند اور گردن زنی نہیں کی جاتی۔
یہ مغربی ثقافت ہی ہے جو بڑے پیمانے پر ہمارے ان مسلم جوانوں کو تباہی سے دوچار کر رہی ہے کہ جن کا تعلق مختلف مالکی، امامی، اباضی، زیدی، حنفی، شافعی، حنبلی، سلفی ۔۔۔ ممالک سے ہے لیکن مسلمان حکومتیں اس کے مقابلے میں اس قدر اقدامات بھی نہیں اٹھا رہیں کہ جس قدر ہم مذہب کے موضوع اور عقائد کو تحفظ دینے کے مسئلہ میں دیکھ رہے ہیں۔
پس ہم میں سے ہر ایک کا یہ حق ہے کہ وہ اپنے مذہب کی طرف دعوت دے اور دوسرے کا یہ حق ہے کہ اس پر تنقید کرے اور اس دعوت میں بدعت و ضلالت کی ترویج کے مشاہدے کی صورت میں اسے علمی انداز سے جواب دے۔
مذهبى دعوت؛ افكار كو پيش كرنے اور كج بحثى كى منطق كے درميان
۳۔ امامیہ کی ثقافت میں اہل بیتکی نصوص کی پیروی کرتے ہوئے ضروری ہے کہ ہم مذہبی دعوت کی دو صورتوں میں فرق کریں:
پہلی صورت: یہ دعوت مذہب کے عقائد کو علمی طریقے سے پیش کرنے کے اسلوب کے ساتھ ہو اور لجاجت و نزاع کے بغیر ہو اور رائے عامہ کو مشتعل یا عام مسلمانوں کے احساسات کو مجروح کیے بغیر ہو۔ اس صورت میں دعوت دینا جائز حق ہے۔
دوسری صورت: یہ دعوت کٹ حجّتی، مناظروں اور افکار کے اشتعال کا باعث بننے والے عناصر یا ایسے اقدامات کے ذریعے ہو جو سماجی پراکندگی کا سبب بنیں؛ یوں کہ کسی ایسے دیہات میں شیعہ مسجد تعمیر کر دی جائے جس میں مثلا شیعوں کی تعداد دس سے بھی زیادہ نہ ہو یا نئے شیعوں اور ان کے آس پاس کی فضا میں اختلافی باتوں کو اس انداز سے نمایاں کرنے پر توجہ مرکوز کرنا جس سے انتشار اور تنازعات کو ہوا ملے۔ یہ طریقہ کار کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔
عقبہ کی حدیث میں امام ابو عبد اللہ جعفر بن محمد صادقسے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: (اجْعَلُوا أَمْرَکُمْ هٰذَا لِلَّهِ وَ لَا تَجْعَلُوهُ لِلنَّاسِ فَإِنَّهُ مَا کَانَ لِلَّهِ فَهُوَ لِلَّهِ وَ مَا کَانَ لِلنَّاسِ فَلَا یَصْعَدُ إِلَى اللَّهِ وَ لَا تُخَاصِمُوا النَّاسَ لِدِینِکُمْ فَإِنَّ الْمُخَاصَمَةَ مَمْرَضَةٌ لِلْقَلْبِ… )[50] (اپنے ان کاموں کو خدا کیلئے قرار دو اور لوگوں کیلئے کام نہ کرو کیونکہ جو کچھ بھی اللہ کیلئے ہو، وہ اللہ کا ہے اور جو کچھ لوگوں کیلئے ہو وہ خدا کی طرف بلند نہیں ہوتا ہے اور اپنے دین کیلئے لوگوں کے ساتھ جھگڑا مت کرو کیونکہ جھگڑنا دل کی بیماری ہے)
ابو بصیر کی حدیث میں امام ابو جعفر محمد بن علی الباقر سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: لا تخاصموا الناس، فان الناس لو استطاعوا أن يحبونا لأحبونا… .[51] (لوگوں سے نزاع مت کرو کیونکہ اگر وہ ہماری محبت پر قادر(یعنی عالم یا علم دوست) ہوتے تو ہم سے محبت کرتے۔۔۔ )
نبی کے اہل بیتکی نصوص؛ تشیع کی نشر و اشاعت کے حوالے سے ایسا نزاع، تشدد اور مبالغہ آرائی کرنے سے منع کرتی ہیں جو لجاجت اور دشمنی کا باعث ہو جائے۔ ایسے کاموں سے منع کیا گیا ہے خواہ انہیں آج کچھ شیعہ انجام ہی کیوں نہ دیتے ہوں۔
یہ سب باتیں ہم ان لوگوں سے بھی کہتے ہیں جو دشمنی، کینہ توزی، نفرت اور عداوت کے ذریعے شیعہ ممالک میں سنیت کو پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔
مگر ہم کسی ایسے شخص کو کیوں قصور وار ٹھہراتے ہیں جو ہر طرح کے بامقصد، علمی اور متوازن وسائل کے ساتھ لوگوں کو اس راہ کی ہدایت کرتا ہے جسے وہ درست و صواب سمجھتا ہے بلکہ اسے یہ حق دینا فرض ہے اور اس پر بامقصد تنقید بھی کی جائے۔
دنيا ميں تشيع كى نشر و اشاعت كا ذمه دار كون هے؟!
۴۔ اگر واقعا تشیع کی نشر و اشاعت تشویش ناک حد تک ہے جیسا کہ بعض کہتے ہیں (حالانکہ بعض شیعہ شہروں میں سنیت کی اس حد تک اشاعت کی جا رہی ہے کہ بعض شیعہ سنی ہو چکے ہیں) تو یہ علمائے دین اور اہل سنت کے دینی مدارس کی کوتاہی ہے۔ آخر کیوں ہم خود کو کوسنے کی بجائے اس تقصیر کو مسلکی اشتعال انگیزی میں گم کر دیتے ہیں۔ ہم اپنی خامی کی تلافی لوگوں کو غیروں کے خلاف بھڑکانے سے کرتے ہیں؟! کیا یہ کام منطقی ہے؟!
اگر سنی دینی مدرسے درست انداز سے کام کرتے تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی کہ لوگ انفرادی اور گروہی سطح پر ان کے مذہب کو خیرباد کہہ دیتے جیسا کہ یہ ان کا اپنا کہنا ہے، پس ہم اوروں پر چڑھائی کر کے اپنی کمزوریاں کیوں چھپانے لگ جاتے ہیں؟!
میرا خیال ہے کہ یہ ایک واضح سیاسی معاملہ ہے اور میں اسے دینی و مذہبی چھاپ سے باہر نکالنے کی دعوت دیتا ہوں بالخصوص جب سب کے سب اس سے دوچار ہیں۔ البتہ اس سے بعض مذہبی اقلیتیں مستثنیٰ ہیں کہ جو اپنے تشخص کو بچانے کی سعی کر رہی ہیں اور دوسروں میں رخنہ ڈالنے کی فکر ان کے دامن گیر نہیں ہے۔
ہم سائنس، کثرتیت، ایک نقطہ نظر اور مقابلے میں دوسرے نقطہ نظر، انفارمیشن کی فراوانی، کمیونیکیشن کے وسائل اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے دور میں ہیں۔ آج کل غیروں کے افکار، پالیسیوں اور عقائد کے اثرو رسوخ کو اپنے معاشروں میں روکنا ممکن نہیں ہے۔ ہمارے سارے ممالک، ہر اس شخص کیلئے کھلے میدان ہیں جو اپنی فکر کی ترویج کرنا چاہے۔ وہ زمانہ گیا کہ جب افکار کو دبا دیا جاتا تھا اور لوگوں کے دیگر آراء تک پہنچنے کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کر دی جاتی تھی۔
ہمیں اس حقیقت نو کا اعتراف کر لینا چاہئیے اور ہماری فکری معرکہ آرائی اس نئے کھیل کے اصولوں پر ہو۔ پس دین کا ہر فریق ، موجودات اور زندگی سے متعلق اپنی رائے، نظریہ اور فہم کو پیش کرے۔ سب مل کر لوگوں کو اس راہ کی طرف مائل کرنے کیلئے مثبت رقابت کریں جسے وہ حق سمجھتے ہیں البتہ اس میں دشمنی، انتقام، معاشرے یا حکومت کو کھوکھلا کرنے یا فتنوں کو ہوا دینے کا قصد نہ ہو۔ جو شخص فتنوں کو ہوا دے اور اپنی دعوت فکر کے طریقہ کار اور اپنے جارحانہ اسلوب کے ذریعے دشمنیوں کا بیج بو دے یا اپنے عزائم کے اعتبار سے وطن کا خائن نکلے؛ تو یہ معاشرے (سنی ہو یا شیعہ یا ۔۔۔) کا حق ہے کہ اس پر فرد جرم عائد کرے یا خود کو اس سے بچائے۔ اس کے علاوہ ملک کی عدالت اور قانونی ادارے درست قانونی چارہ جوئی کر کے ہر قسم کے سیاسی دباؤ اور سیکیورٹی اثرات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اس کا غیر جانبدارانہ اور آزادانہ ٹرائل کریں۔
۞۞۞۞۞
باهمى اختلافات كى مديريت
اصول، طريقه كار اور وسائل
تمهيد
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں میں اختلاف پایا جاتا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ اصول و فروع کے اس اختلاف کو دور کرنے کا ہمارے سامنے کوئی راستہ نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس صورتحال میں کیا کرنا ہو گا؟ ہمارے لیے کون سے اقدامات اٹھانا اور کن ہدایات پر عمل درآمد ضروری ہے تاکہ یہ اختلاف ہمارے لیے وبال نہ بن جائے؟ ہم دنیا کی ایک عظیم قوم ہونے کے ناطے کس طرح کم از کم ہمبستگی حاصل کر سکتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ہم اپنی اختلافی رائے پر بھی قائم رہیں جب تک اسے برطرف نہ کر پائیں؟
ہمارے گزشتہ مطالب میں مذہب امامیہ کی تعریف پھر مذہب امامیہ اور دیگر مختلف مذاہب کے اس کے ساتھ تعلقات کی راہ میں حائل تشویش ناک امور کا ذکر کیا گیا ہے؛ لیکن ان ساری وضاحتوں کے بعد سوال یہ ہے کہ ہم کیسے اختلاف کریں؟ اور ہم ان اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ کیسا سلوک کریں؟ ہم ان دو طرفہ خدشات اور تشویشناک امور کا قلع قمع کرنے کیلئے ایک دوسرے کی کس طرح مدد کر یں کہ جن کی وجہ سے مذکورہ موضوعات اور عناوین میں حساسیت اور اشتعال کا عنصر پیدا ہو جاتا ہے اور ہمیں ہر صورت اسے کم کرنا ہے۔
ہمارے نزدیک اس پیغام میں ہمارا فرض بنتا ہے کہ کچھ ایسے انسانی، اخلاقی اور شرعی قواعد کی بنیاد مستحکم کریں جن سے ہم سب کو اپنے حقوق حاصل ہوں گے؛ ایک جہت سے کثرت افکار میں اور دوسری جہت سے باہمی ہم آہنگی کی بقا میں۔
یہ عام اصول و ضوابط ہیں جنہیں اگر ہم اپنی زندگی کے تمام پہلوؤں پر لاگو کر لیں اور مسلمان اس پر متفق ہو جائیں تو وہ اپنے اختلافات کو بہتر طریقے سے کنٹرول کر سکتے ہیں۔
ہم بقدر وسعت یہاں پر زیادہ اہم شرعی اور اخلاقی اصول و قواعد کی طرف اشارہ کرنے کی سعی کریں گے۔
پهلا اصول: اجتهاد كا جواز اور دوسرے كو تسليم كرنا
قرآن کریم نے ہمیں اپنی آیات اور سورتوں میں تدبر کا حکم دیا ہے اور اسی طرح ہم سنت شریفہ کی نصوص کا فہم حاصل کرنے پر مامور ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ دین میں اجتہاد کی ذمہ داری امت پر ہے اور دین میں اجتہاد اس چیز کا نام ہے کہ تفسیر، قرآنیات، سنت، حدیث، فقہ، تاریخ، عقائد، اخلاق وغیرہ کو سمجھنے کی بابرکت جدوجہد کی جائے۔
جب امت اس ذمہ داری کی حامل ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ایسے مدارس، جامعات اور دینی ادارے سامنے آئیں جو اپنے کاندھوں پر اس عظیم ذمہ داری کی قبا کو سجائے ہوئے ہوں۔
جب تک اجتہاد جائز ہے اس وقت تک مجتہد کی خطا کا قابل قبول اور متوقع ہونا بدیہی ہے اور جب تک اجتہاد امت کا حق اور در عین حال اس پر واجب ہے اور دوسری جانب سے یہ امت اجتہادی غلطی سے اجتناب پر قادر نہیں ہے؛ کیونکہ علماء ، فقہا، مفسرین اور محدثین اس عصمت کے مرتبہ پر فائز نہیں ہوئے ہیں کہ جس پر رسول خدا حضرت محمد ﷺفائز تھے۔۔۔ تو اس کا مطلب ہے کہ اجتہاد میں غلطی متوقع ہے خواہ ارادے کتنے ہی درست اور نیتیں کتنی ہی صاف کیوں نہ ہوں؛ کیونکہ یہ انسانی عقل کی محدودیت ہے کہ اس کے پاس واقع اور حقیقت کو سمجھنے کے تمام عناصر دستیاب نہیں ہیں۔
اگر دینی اجتہاد میں غلطیوں کا سرزد ہونا متوقع ہو تو اس کے منطقی نتیجے کی رو سے یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان غلطیوں کو برداشت کریں۔ جو کوئی کسی کام یا پیشے سے منسلک ہونا چاہتا ہے تو قدرتی بات ہے کہ وہ خود کو اس کے تقاضوں کے مطابق ڈھالتا ہے۔ پس جب تک ہم امت میں اجتہاد کا احیا چاہتے ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ہم ان فطری و ناگہانی نتائج کو بھی قبول کریں جو باب اجتہاد کو کھولنے سے نمودار ہوتے ہیں۔ جیسے کسی نہ کسی موضوع پر مجتہدین سے کچھ غلطیاں سرزد ہونا۔
علم فقه، علم كلام اور علم تاريخ ميں ايك ساته باب اجتهاد كو كهولنے كى ضرورت
یہاں اس موضوع پر ہمارا یہ بیان حائز اہمیت ہے کہ اجتہاد شرعی علوم اور فقہ و عمل تک محدود نہیں ہے بلکہ بالعموم عقائد، تفسیر قرآن، فہم تاریخ اور تصور کائنات کو شامل ہے بلکہ ہر اس موضوع کو شامل ہے جو الوہیت، توحید، نبوت، معاد، امامت وغیرہ سے متصل ہو۔
ہاں! یہاں ایک طویل و عریض سرخ لکیر ہے اور وہ ہے: اللہ اور اس کی وحدانیت پر ایمان کا اصول، نبوت و رسالت کے عقیدے کا اصول۔ تاہم تفصیلات علماء کے اجتہادات کے تحت ہیں اور ہمیں علم کلام، علم قرآن، علم شریعت، علم تاریخ اور علم حدیث میں غلطیوں کے سرزد ہونے کی توقع رکھنی چاہئیے اور یہ ضروری نہیں ہے کہ غلطی، اللہ و رسول کے خلاف سازش، کفر یا دشمنی ہو۔
جب ہم اجتہاد کا احترام اور عقل و دل کی گہرائیوں سے اس کا حقیقی اعتراف کریں گے تو اس کے بعد ہم اپنے مابین پائے جانے والے ان تمام اختلافات کو سمجھ پائیں گے۔ یہ چیز منفی اختلاف کی حالت سے نکل کر مثبت اور نتیجہ خیز اختلاف کی طرف جانے کی بنیاد قرار پائے گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ
جواز اجتہاد کے باوجود یہ کہہ کر کہ فلان مجتہد نے ایسا اور ویسا کہا ہے، اس کے خلاف جذبات کو بھڑکانا بے معنی حرکت ہے۔ یہ اس کا حق ہے اور اس پر علمی تنقید اور تمام ممکنہ جائز، علمی اور اجتہادی راستوں سے اس کا جواب پیش کرنا؛ یہ ہمارا حق ہے۔۔۔ جواز اجتہاد کے ہوتے ہوئے دوسروں کو اکسانے، چیخنے چلانے، عوام النّاس کو مشتعل کرنے؛ شخصیات، رموز اور مکاتب فکر کو نظروں سے گرانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
کیونکر ممکن ہے کہ ایک شخص اجتہاد کی حریت اور جواز کا معترف ہو پھر وہ ایک بحرانی کیفیت پیدا کر دے جب مجتہدین کی رائے اس کی رائے سے مختلف ہو جائے؟! یہ کیسا جواز ہے؟ اور یہ کیسی حریت ہے؟! اس صورت میں اس کا مطلب یہ ہو گا: اے مجتہدو! اجتہاد کرو لیکن کسی ایسے حکم یا مفہوم کا استنباط کرنے سے بچو جو میری رائے کے خلاف ہو!! یہ ظاہرمیں اجتہاد ہے مگر حقیقت میں تقلید کروانا اور دوسرے کی شخصیت کو کچلنا ہے۔
دوسرى اصول: مسلمان كيلئے عذر تلاش كرنا
جب مجتہدین اور ان کے پیروکار اصول یا فروع کے کسی مسئلے میں غلطی کرتے ہیں تو اس کا مطلب چپ سادھ لینا اور ہدایت، امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور بیان حق کے فریضے سے سبکدوش ہونا نہیں ہے۔ ہم میں سے ہر فریق کا فرض ہے کہ اپنے علم کا اظہار کرے اور ان چیزوں کا مقابلہ کرے جنہیں وہ خطا یا امت کے اندر انحراف سمجھتا ہے؛ (اور ظاہر ہے کہ یہ چیزیں) بعض علماء یا مذاہب کے نادرست اجتہادات کا نتیجہ ہیں۔ یہ ہر داعی الی اللہ اور اپنے دین پر حریص شخص کا جائز حق ہے بلکہ یہ مقدس الٰہی و شرعی واجب ہے جو اکثر اوقات طول تاریخ میں انبیاء و اولیاء کا فریضہرہا ہے۔
تاہم کیا خطا کو دیکھنے کا مطلب یہ ہے کہ خطا کرنے والوں کو مجرم قرار دیا جائے؟ کیا بعض مجتہدین اور ان کے پیروکاروں کی اصول یا فروع میں خطا کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایسے جرم کے مرتکب ہوئے ہیں جس میں ان کے لیے عذر خواہی کی بالکل کوئی گنجائش نہیں ہے یا یہ کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سامنے ان کی خطا کا ان کی عذر خواہی کے ساتھ جمع ہونا ممکن ہے؟!
شرعی قاعدہ کہتا ہے: “احمل أخاك على سبعين محملاً”(اپنے بھائی کیلئےستر ستر تاویلیں کرو) اس قاعدے کا مطلب یہ ہے کہ جن موارد میں دوسروں نے اپنے اجتہاد میں خطا کی ہے؛ میرا فرض ہے کہ ان میں ان کیلئے کوئی عذر ڈھونڈھوں اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی حق کی طرف ہدایت اور ان کیلئے ان کی خطا کو برملا کرنے کی سعی بھی کروں۔
عذر تلاش کرنے کی ذمہ داری سے مراد یہ ہے کہ ہمیشہ یہ فرض نہ کروں کہ انہوں نے حق کی معرفت میں کوتاہی کے نتیجے میں خطا کی ہے کیونکہ بعض اوقات کوتاہی کے نتیجے میں خطا سرزد ہوتی ہے لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ پوری جدوجہد کے باوجود گوہر حقیقت تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔
ہمارا پیغام یہ ہے کہ اس روش ومنہج اور طریقہ کارکو اپنایا جائے۔۔۔آئیے! ہم اختلاف کریں اور ہم میں سے ہر ایک دعوت، ہدایت اور تصحیح کے حوالے سے اپنی شرعی ذمہ داری کو پورا کرے اور اس کے ساتھ ہم اپنے بعض لوگوں کیلئے ان موارد میں کوئی عذر تلاش کریں کہ جن میں ہماری آراء اور اجتہادات ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور ہم خطا، خطیئہ اور ذنب کو ایک دوسرے سے مخلوط نہ کریں۔ ایسا نہیں ہے کہ ہر خطا کے پیچھے کوئی جرم، گناہ یا عناد ہو بلکہ مجتہد (جیسا کہ کہا جاتا ہے) اگر خطا کرے تو اس کیلئے اجر ہے اور اگر صائب ہو تو اس کیلئے دو اجر ہیں۔
تيسرا اصول: مشتركه اور اختلافى امور، اسلام اور مذاهب كى تحليل كا موجب نه هوں
اس اصول سے ہماری مراد یہ ہے کہ ہمارے افکار اور ہماری آراء میں کچھ ایسے نقاط ہیں جن میں ہم ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں اور کچھ ایسے نقاط ہیں جن پر ہمارا اختلاف ہے اور مطلوب یہ ہے کہ ہم ایک ساتھ دونوں پر روشنی ڈالیں۔
ہم اس چیز کے مخالف ہیں کہ مشترکہ امور جیسے شہادتین، نماز، حج، زکوٰۃ، جہاد اور روزہ وغیرہ پر توجہ مرکوز کر کے اختلافی امور کو منسوخ کر دیا جائے یا ان میں بات چیت پر پابندی عائد کر دی جائے۔ تمام کے تمام مذاہب کا یہ حق ہے کہ وہ عقائد، تاریخ اور شریعت میں اپنے نقطہ نظر کا اظہار کریں اور اپنے نقطہ نظر کا دفاع کریں اور دیگر مذاہب کی آراء پر تنقید کریں۔ ہم مذہبی اختلافات پر گفتگو کا دروازہ بند کرنے کو مسترد کرتے ہیں لیکن یہ امر مشترکہ نکات کو بھلا دینے کا جواز فراہم نہیں کرتا ہے۔
آج شیعوں سے کہا جا رہا ہے کہ اہل سنت کے ساتھ مشترک امور کو آشکار کریں اور بالکل اسی چیز کا اہل سنت سے بھی مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ یہ درست نہیں ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے مذہب کا ایک ایسا تصور بنا لے کہ گویا یہ دیگر مذاہبِ مسلمین سے بالکل الگ تھلگ ہے جبکہ سب سے بڑے شرعی اور اعتقادی اصول اور اسی طرح فروع کے وسیع میدان میں ایسے عظیم مشترک عناصر ہیں کہ جنہیں اختلافات کی مدیریت کے وقت سامنے رکھنا سزاوار ہے تاکہ اختلاف جدائی کی سوچ کے راسخ ہونے کا موجب نہ بنے۔ لہٰذا یہ فکر درست نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس اختلاف، اشتراک و افتراق کی حدود کے تعین پر قائم ہوتا ہے اور یہ مورد اختلاف چیز کے محل و مقام کی معرفت کا مقدمہ ہے۔
آج ہمارا پیغام یہ ہے کہ ہم اشتراک و اختلاف ایک ساتھ کریں اور آج ہمارا پیغام یہ ہے کہ نہ ہم اپنے اشتراک کو اپنے اختلاف پر غالب کریں اور نہ ہی برعکس بلکہ ہم اکٹھے ہوں اور اتفاق کے موارد پر زور دیں اور اس کے ساتھ ساتھ ہر شخص عقیدے اور شریعت میں اپنی خصوصیات کو بھی محفوظ رکھے۔
ہم مذاہب کی تحلیل اور تنسیخ کے خلاف ہیں۔ یہ ایک غیر حقیقی سوچ ہے۔ ہم مسلمانوں کے اختلافی امور میں سوچ بچار اور اجتہاد کے باب کو بند کرنے کے مخالف ہیں۔ البتہ ہم ایسی متوازن عینکیں لگانے کی ضرورت سے متفق ہیں جن کے ذریعے ہم اپنے اتفاق اور اختلاف کے عناصر کو بیک وقت دیکھ سکیں۔ پس ہم عناصرِ اختلاف کو لغو قرار دے کر مذاہب کی تحلیل کے مرتکب نہیں ہوں گے اور نہ ہی اسلام کی تحلیل کریں گے کہ ایسے اسلام پر جمع ہو جائیں جس کے عناصرِ اتفاق کو منسوخ کر دیا گیا ہو۔
ہمارا نقطہ نظر نہ مذاہب کو لغو کرنے کی بنیاد پر قائم ہے اور نہ ہی اسلام کبیر (مشترکات) کو لغو قرار دینے کی بنیاد پر قائم ہے بلکہ اس کے برعکس یہ ان دونوں کی ایک ساتھ حفاظت کی بنیاد پر قائم ہے اور باہمی اختلافات کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے یہ نقطہ بہت اہم ہے۔
چوتها اصول: اقليت و اکثريت؛گلے لگانا اور مل جل كر رہنا
اس اصول سے ہماری مراد یہ ہے کہ مسلمانوں کے یہاں (مذاہب کے پیروکاروں کی تعداد کے اعتبار سے) کچھ اقلیتیں اور ایک اکثریت ہے۔ مذہبی اقلیتیں جیسے اسماعیلیہ، اباضیہ، زیدیہ اور امامیہ اور دنیا بھر کی سنی اکثریت۔
اسی طرح تقریبا ہر ملک میں اقلیتیں اور ایک اکثریت ہے۔ بعض اوقات شیعہ اکثریت اور سنی اقلیت میں ہوتے ہیں جیسا کہ ایران اور آذر بائیجان میں ہے اور بعض اوقات معاملہ برعکس ہوتا ہے جیسا کہ یہ شمالی افریقہ، پاکستان، انڈونیشیا، ملائشیا وغیرہ میں ہے۔۔۔۔۔ اگرچہ ہمیں یہ امر پسند ہے کہ ہم مسلمانوں کے اندر اقلیت و اکثریت کی بات نہ کریں کیونکہ ہم سب ایک ہیں۔
اسلام میں وہ کون سا دینی اصول ہے جو مسلمانوں کی اقلیت کے اکثریت اور اکثریت کے اقلیت کے ساتھ تعلقات کا تعیّن کرتا ہے؟!
ہمارے نزدیک یہ اصول دو چیزوں پر مشتمل ہے: گلے لگانا اور مل جل کر رہنا:
۱۔ اکثریت کا اقلیت کو گلے لگانا، اس کا خیر مقدم کرنا، اس کیلئے ماحول کو سازگار بنانا، اسے اپنی بقا کے لیے درکار ضروری آزادیاں فراہم کرنا، اس کے وجود کا احترام کرنا، اسے اختلاف رنگ و نسل اور بقائے باہمی کے حوالے سے ملکی سرمایہ سمجھنا اور اسے ملازمتوں، عدالتوں، محکموں، ذرائع ابلاغ اور اظہار خیال وغیرہ کے حوالے سے قانونی حقوق دینا۔
ب۔ اقلیت کے اکثریت کے ساتھ مل جل کر رہنے کا مطلب یہ ہے کہ اقلیتں کہیں الگ تھلگ نہ ہو جائیں، اکثریت کے ساتھ میل جول سے انکار نہ کر دیں اور اپنے آس پاس کے لوگوں میں سے ہر کسی کے خلاف شورش برپا نہ کر دیں بلکہ ان سے اتحاد، تعاون، حب الوطنی کا عظیم احساس پھر مسلمان ہونے کا عظیم ترین احساس مطلوب ہے نہ کہ ایسی اقلیت والا احساس جو اکثریت کی غیر ہو اور تاریخ کے حساس واقعات کے خول میں بند ہو۔
اسی طرح مل جل کر رہنا اور گلے لگانا؛ تحریک آمیزی، اشتعال انگیزی، ہڑتالوں، محاصروں اور دوسروں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے سے نجات میں بھی ممد و معاون ہیں۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ گلے لگانے اور مل جل کر رہنے کا اصول دوطرفہ ہے کہ جسے دو طرفہ تعاون کے بغیر مکمل طور پر لاگو نہیں کیا جا سکتا۔ یک طرفہ اقدامات سے کوئی مفید نتیجہ برآمد نہیں ہو گا سوائے ایک محدود دائرہ کار کے۔ لہٰذا گھل مل کر رہنے کا تقاضا یہ ہے کہ اقلیتیں گوشہ نشینی، کینہ توزی اور تاریخ کے خوف سے آزاد ہوں اور اکثریت کو بھی بالا دستی، اجارہ داری اور ظلم و استبداد کا رویہ ترک کرنا ہو گا اور جس قدر دو طرفہ اقدامات کیے جائیں گے اسی قدر یہ پروگرام کامیابی سے ہمکنار ہو گا۔
عرب دنيا ميں شيعه كى وطن سے وفاداری
ہماری عرب دنیا میں ہمیشہ یہ بات کی جاتی ہے کہ شیعہ کی نسبت ملک عرب سے باہر کیساتھ ہے، بالخصوص کبھی فارسی ایران کے ساتھ ہے اور کبھی دیگر غیر عرب دینی مراجع سے ہے۔ ہر عرب شیعہ پر یہ تہمت ہے کہ وہ ایرانی باشندہ ہے اور عرب شہری نہیں ہے، اس کی وفاداری ایران کیلئے ہے نہ کہ ملک عرب یا قوم عرب کیلئے اور یہ دینی مراجع سے نسبت رکھتا ہے جو ان کی سیاسی وابستگیوں کا تعین کرتے ہیں حالانکہ وہ اس کے وطن کی حدود سے باہر ہیں۔ عرب شیعہ کی اس توصیف کو وطن سے غداری کے عنوان سے پیش کیا جاتا ہے۔
میں یہاں پر نہیں چاہتا کہ اس منفی بحث کو طول دوں اور عرب شیعوں کے وہ موقف گنواؤں جو طول تاریخ میں وہ عرب مسائل کے حوالے سے اختیار کرتے رہے ہیں لیکن دو نقطوں کی طرف اشارہ میرے نزدیک اہم ہے:
پہلا نقطہ: ایسی شرعی مرجعیت کی طرف دینی نسبت (میں سیاست سے باہر نکل کر بات کر رہا ہوں) جو اس وطن یا اُس وطن سے باہر ہے؛ وطن سے غداری نہیں ہے، خاص کر جب ہمیں معلوم ہے کہ دینی مراجع اکثر و بیشتر اس ملک کے قوانین کی پابندی کرنے کی دعوت دیتے ہیں جس میں انسان زندگی بسر کر رہا ہے اور کسی سے اپنے وطن کے خلاف شورش برپا کرنے یا اسے دوسروں کے حوالے کر دینے یا اس کے اور اس کی خود مختاری کے دفاع میں ایک دوسرے کی نصرت نہ کرنے کا نہیں کہتے۔
پس جیسے عیسائیوں کی دینی نسبت انہیں ویٹیکن کے لاٹ پادری سے جوڑ دیتی ہے اور ان کی شہریت کو منسوخ نہیں کرتی اور جس طرح دیگر مذاہب کے بہت سے پیروکاروں کا دینی تعلق کبھی انہیں الازہر اور اس کے علماء کی مرجعیت سے جوڑتا ہے اور کبھی انہیں سعودی عرب کے علماء کی مرجعیت سے متصل کر دیتا ہے اور ان کی اپنے ممالک؛ لیبیا یا سوڈان یا یمن یا شام یا الجزائر وغیرہ کی شہریت کو منسوخ نہیں کرتا اور اس سے بڑھ کر غیر عربوں جیسے ملائشیا، بنگلہ دیش، پاکستان، ہندوستان ۔۔۔ کی ان مراکز کی طرف نسبت کا معاملہ ہے کہ وہ اپنے اس عہد و پیمان سے عرب نہیں ہو جاتے بلکہ وہ اپنے ممالک کے وفادار شہری ہی رہتے ہیں ۔۔۔۔ یہی حال اس امامی کا ہے جو اپنا دینی مرکز عراق یا ایران میں دیکھتا ہے اور اپنے مرجع سے نماز، روزے، عقود و معاملات کے احکام کو اخذ کرتا ہے۔ تو کیونکر یہ وطن سے غداری ہے لیکن وہ نہیں ہے؟!
مشرقی و مغربی ایشیا کے کروڑوں اہل سنت کی جانب سے مصر یا سعودی عرب یا قطر کے بعض علماء کی مرجعیت کی پیروی ان کے اپنے ممالک کے اندر ان کی حب الوطنی کیلئے نقصان دہ نہیں ہے لیکن عرب شیعہ امامیہ کی جانب سے عراق کی کسی ایسی دینی مرجعیت کہ جس سے عرب اور عربی مسائل کے حوالے سے کوئی منفی بات معروف نہیں ہوئی؛ کی پیروی میں ان کی حب الوطنی اور ملک سے وفاداری کے اعتبار سے کوئی مسئلہ ہے؟!
اگر لوگوں کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے تو ہم سرے سے ان باتوں میں کوئی مشکل نہیں پائیں گے۔
دوسرا نقطہ: اگر ہم مرجعیت کو چھوڑ کر حکومتوں کا رخ کر لیں تو نہایت سادہ بات یہ ہے کہ ہم عرب دنیا کی اکثریت سے ایک سوال کریں گے: آپ کے نزدیک عرب شیعہ ایرانیوں کی آغوش میں کیوں پناہ لیتے ہیں جیسا کہ یہ آپ ہی کا کہنا ہے، حالانکہ ان میں سے اکثر عراقی مرجع کی تقلید کرتے ہیں؟!
کیا یہ اس امر کی حکایت نہیں کرتا ہے کہ وہ ہماری عرب دنیا میں کسی قابل اعتماد اور محبت بھری آغوش سے محروم ہیں؟
جب بہت سارے ممالک میں شیعہ اور غیر شیعہ کے درمیان مسلکی امتیاز برتا جائے گا تو وہ یہ محسوس کرے گا کہ اس کی نگرانی اور محاسبہ کیا جا رہا ہے اور کام کاج اور دینی آزادیوں کی نسبت اس کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے اور وہ ہمیشہ نشانے پر ہے، اس میں کسی کو دلچسپی نہیں ہے، وہ دوسرے درجے کا شہری ہے تو فطری بات ہے کہ وہ کسی ایسی طاقت کی پناہ میں چلا جائے گا جو اسے سکون و اطمینان اور اعتماد سے نوازے۔
اگر شیعہ اکثریتی ممالک کی حکومتیں اسی پالیسی پر عمل درآمد کرنے لگیں تو وہاں بھی یہی کچھ ہو گا اور آپ سنیوں کا جھکاؤ سعودی عرب کی طرف پیدا ہوتے دیکھیں گے۔
ہم کس طرح گناہ کا بوجھ اور ذمّہ داری کا بار خود متاثرین کے کاندھوں پر ڈال کر درپیش صورتحال میں اپنے عرب اور غیر عرب ممالک میں نافذ العمل پالیسیوں کو کلین چٹ دے دیں؟! ہم اپنے عرب معاشروں کے اندر فرقہ واریت اور مسلکی امتیاز کی عمارت کو جس قدر بلند کریں گے، اتنا ہی عرب شیعہ کو مجبور کریں گے کہ وہ اپنے پورے وجود سے ایران کی اسٹریٹیجک پالیسیوں پر بھروسہ کرے۔
میں یہاں پر ایران اور اس کے کردار کی بات نہیں کر رہا کیونکہ یہ ہمارا موضوع نہیں ہے بلکہ میں اس صورتحال کے اسباب کی توصیف و تشریح کر رہا ہوں جسے ہم حب الوطنی کے معاملات میں مبالغہ آرائی کی حد تک بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔
اگر ہم یہ کام عرب دنیا کے عیسائیوں کے ساتھ کریں تو فطری امر ہے کہ وہ طاقت کے حصول کی خاطر مغرب کی پناہ ڈھونڈیں گے، یہ بالکل کسی بھی دوسری اقلیت کی مانند ہے۔ تو ان اقلیتوں کو ملامت کرنے کی بجائے لازم ہے کہ ہم عرب دنیا میں خود کو سرزنش کریں۔ اس لیے کہ عرب حکومتوں نے اقتدار، طاقت، ادارے اور مال رکھنے کے باوجود ان اقلیتوں کو آغوش میں لینے اور انہیں امن و امان کا احساس دلانے کیلئے کیا کام کیا ہے؟!
عجیب یہ ہے کہ ہماری عرب حکومتیں ان کمزور اقلیتوں کو ہی ملامت کرتی ہیں اور یہ بھول جاتی ہیں کہ وہ اپنے ہم وطنوں کو اپنی طرف مائل کرنے سے عاجز ہیں؛ اس کے ساتھ ساتھ وہ ایران جیسے ملک کو بھی ملامت کرتی ہیں جو گزشتہ دہائیوں میں حتی بہت سے اہل سنت عربوں کو اپنی آغوش میں لینے اور ان کی تربیت کرنے میں کامیاب رہا ہے! پس شیعہ ایران سنی عربوں کو ایک طولانی مدت سے اپنی طرف متوجہ کرنے میں کیسے کامیاب ہوا ہے حالانکہ وہ اس کے شہری نہیں ہیں اور ہماری سنی عرب حکومتیں اپنے عرب شیعہ شہریوں کو اپنی طرف متوجہ نہیں کر سکیں بلکہ اپنے بعض اہل سنت شہریوں کو بھی اپنی طرف مائل نہیں کر سکی ہیں؟!
یہ ہماری عرب قوم اور ہمارے حکمرانوں کی اسٹریٹیجک پالیسیوں کا عجیب و غریب کرشمہ ہے کہ ہم مشکلات کی جڑ کو چھوڑ کر دوسری جگہوں پر ان کا حل تلاش کر کے خود کو ضائع کر دیتے ہیں۔
حب الوطنی کا مسئلہ حل نہیں ہو گا مگر گلے لگانے اور مل جل کر رہنے کے جڑواں اصول کے ساتھ۔
پانچواں اصول: آزادی اور امن وامان
ممکن نہیں ہے کہ ہم اپنے اختلاف کو صحت مند بنیادوں پر استوار کر لیں جب تک ہم اسلام کے اصول حریت پر یقین نہ رکھتے ہوں۔ حریت یہاں پر ہرگز شریعت کی نافرمانی اور اخلاقی حدود سے تجاوز کرنے کے معنی میں نہیں ہے ۔۔۔ حریت یہاں پر ان چار سابقہ اصولوں کا طبعی نتیجہ ہے جن کے بارے میں ہم بات کر چکے ہیں، حریت کا خلاصہ ان امور میں ہوتا ہے:
- مذہبی تشخّص کے اظہار کی آزادی۔
- مذہبی شعائر اور رسومات کو امن و سکون سے ادا کرنے کی آزادی۔
- سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی زندگی میں دو طرفہ تعاون کا دروازہ کھولنا۔
- ہر خاص و عام کیلئے آزاد ذرائع ابلاغ کی فراہمی۔
- تنقید اور اس کا جواب دینے کی آزادی۔
- نظام اجتہاد کے مطابق عقیدہ رکھنے کی آزادی البتہ توحید و رسالت کی شہادت کے زیر سایہ۔
- کام کاج، نوکری، رہائش، نقل و حرکت کی آزادی اور اقلیتوں یا غیر ملکیوں کے خلاف مختلف شکلوں کے امتیازی سلوک کو برطرف کرنا۔
- دینی مقامات کی تعمیر اور ان کے مادی و معنوی احیا اور تعمیر کی آزادی، ان قوانین کے تحت جن سے معاشرتی توازن اور امن و امان کا خیال رکھا جا سکے۔
(سب سے پہلے) مذہبی شخصیات سے اپیل ہے کہ وہ دینی ماحول قائم کر کے ان آزادیوں کا تحفظ یقینی بنائیں۔ (دوسرے نمبر پر) سیاستدانوں اور ذرائع ابلاغ سے بھی یہی اپیل ہے پھر (تیسرے نمبر پر) عام معاشرے سے بھی یہی مقصود ہے۔
اس مقام پر علماء ، دانشوروں اور صحافیوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ ذمہ دارانہ آزادی کے ماحول کی نشرو اشاعت کریں، نہ کہ ایسی آزادی کی جو ہر قید و بند سے آزاد ہو۔ باہدف آزادی کی اور نتیجہ خیز اور باشعور آزادی کی، نہ اس آزادی کی جو لوگوں کے انحطاط و ہلاکت کی موجب بنے۔
چھٹا اصول: مذهبى پهلو كو سياسى پهلو سے عليحدہ كرنا
اس سے ہماری مراد سیکولر ازم نہیں ہے بلکہ مقصود یہ ہے کہ علمائے دین، دانشور، میڈیا، اہل قلم اور صحافی؛ دینی و مذہبی پہلو اور سیاسی مصلحتوں کا ایک دوسرے سے تعلق نہ جوڑیں۔ پس ایسا نہ ہو کہ شیعہ امامیہ جہاں کہیں بھی ہوں ان پر ایک سیاسی لیبل لگا کر انہیں ایجنٹوں کے زمرے میں ڈال دیا جائے اور نہ ہی ان اہل سنت پر اس قسم کا کوئی لیبل لگایا جائے اور نہ ہی زیدیہ سے اباضیہ تک دیگر مذاہب کے پیروکاروں کیساتھ ایسا کیا جائے۔
اس مقام پر ذرائع ابلاغ اور علماء کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مذاہب کو ملکوں اور جماعتوں میں تقسیم کرنے کا راستہ روکیں اور اس کے ساتھ ساتھ ہم سب اپنے سیاسی حقوق اور ان افکار کا تحفظ بھی کریں جن کے ذریعے ہم کسی نہ کسی حکومت یا کسی نہ کسی سیاسی خط کا دفاع کرتے ہیں۔
ہم شیعہ اور اہل سنت دونوں سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنی ان مذہبی حکومتوں کی مدد کریں جن میں وہ امت کے دشمنوں کے مقابلے میں مسلمانوں کی طاقت کا عنصر دیکھ رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم بعض حکومتوں یا جماعتوں یا تنظیموں کی جانب سے مذاہب کی ان ملکوں میں تقسیم کے عمل کو مسترد کرتے ہیں کیونکہ اسلامی مذاہب اس سے بالا تر ہیں۔
ہمارا پیغام یہ ہے کہ ہم کسی سنی پر فلاں یا فلاں سنی حکومت کے ساتھ اپنے اختلاف کی وجہ سے ظلم نہ کریں اور نہ ہی کسی شیعہ کا اس بنا پر قلع قمع کر دیں کیونکہ ہم فلاں یا فلاں شیعہ حکومت کے خلاف ہیں۔ ہمیں دین اور مذاہب کو اہل سیاست سے آزاد کرنا ہو گا۔ سیکولرازم دین و سیاست کی ایک دوسرے سے آزادی اور کامل جدائی کا نام ہے لیکن جو ہم کہہ رہے ہیں وہ دین اور سیاست دونوں کو (ان مذموم ہتھکنڈوں سے) آزادی دلا کر سیاست کو دین اور اخلاق کے قالب میں ڈھالنے کی سعی کرنا ہے اور بس۔
بلا شبہہ شیعوں میں شیعہ حکومت کے مخالفین موجود ہیں اور اہل سنت میں سنی حکومت کے مخالف ہیں۔ یہ سیاسی تقسیم بندیاں ہیں اور ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ انہیں سیاسی دائرے میں رہنے دیا جائے اور سیاستدانوں کو اپنے خاص مفادات کیلئے مذہبی جذبات سے فائدہ اٹھانے سے روکا جائے۔
۞۞۞۞۞
انتهائى ناگزير عملى اقدامات
گزشتہ صفحات میں ہم نے مذہب شیعہ امامیہ اثنا عشریہ کا تعارف پیش کیا کہ جو فقہی اعتبار سے مذہب جعفری کے نام سے معروف ہے پھر ہم نے اہل سنت اور امامیہ کے مابین حل طلب مسائل کے بارے میں بات کی۔ اسی طرح ہم نے اپنے اختلاف کی مدیریت کے حوالے سے کچھ قواعد و ضوابط وضع کیے۔ یہاں پر ہم آخر میں (اور اپنی عادت کے مطابق اختصار کیساتھ) ان عملی اقدامات کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں جن پر عمل درآمد ہمارے اوپر لازم ہے اور وہ ہماری نگاہ میں مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ مسلمانوں كا اپنے مذاهب ميں جديد تنقيدی نگاہ سے نظر ثانى كرنا (مذهبى ميراث كى چھان بين)
یہ امر ہٹ دھرمی اور اصرار کے بغیر ہو۔ جن چیزوں کو وہ غیر ثابت سمجھتے ہیں تو ان پر لازم ہے کہ انہیں ایک طرف رہنے دیں اور ان سے نجات حاصل کریں اور ہمارے پاس (خدائے واحد کیلئے) ایسا کرنے کی جرات ہونی چاہئیے۔ اس کا مطلب ہے مذہب کی عصمت کے خیال کو ایک طرف رکھنا۔ مذاہب معصوم نہیں ہیں۔ بعض اوقات اہل سنت خطا کرتے ہیں اور بعض اوقات شیعہ حتی اگر نبی کریمﷺمسلمانوں کے نزدیک خطا نہیں کرتے اور اہل بیتامامیہ کے نزدیک خطا نہیں کرتے تو اہل سنت نبی یا صحابہ نہیں ہیں اور نہ ہی شیعہ اہل بیت ہیں لہٰذا اپنی خطاؤں کا اعتراف کر لینا ہی باعث فضیلت ہے۔
اسی طرح یہ ضروری ہے کہ سب مذاہب کی حدیثی میراث کا تصفیہ کیا جائے اور اس میراث کو علمی تنقید کے مرحلے سے گزارا جائے۔ اس سے ہمارا مقصود یہ نہیں ہے کہ کتابوں میں رد و بدل کر دیا جائے یا پہلوں کی کتابوں کو بازیچہ اطفال بنا دیا جائے ۔ اس کا مطلب اسی قدر ہے کہ جن حدیثی، تاریخی اور فقہی کتب کو معتبر قرار دے کر ہم اس سے ایک عام قومی ثقافت تشکیل دینا چاہتے ہیں؛ ان پر کام کرنا، ان کی چھان بین کرنا اور ان میں سے ثابت شدہ اور درست متن کی حامل روایات کو سامنے لانا ضروری ہے۔ تاہم جن روایات سے نبی کریم ﷺکا چہرہ (معاذ اللہ ) خراب ہوتا ہو یا غلو آمیز خیالات جنم لیتے ہوں یا ۔۔۔۔ تو ان کے حوالے سے لوگوں کو متنبہ کرنا علماء کی ذمہ داری ہے اور انہیں مذہب کی ترجمان روایات کی حیثیت سے نہ لیا جائے بلکہ یہ صرف اس شخص کی ذاتی رائے کی ترجمان ہوں گی جو ان پر ایمان رکھتا ہو خواہ اس کا تعلّق کسی بھی مذہب سے کیوں نہ ہو۔
۲۔مسلمانوں كا دوسرے مذهب كے بارے ميں اپنى رائے پر نظر ثانى كرنا
دوسرے کو ایک مرتبہ پھر غیر جانبدارانہ انداز سے سمجھا جائے نہ کہ کشمکش، کج بحثی اور جماعت کی بنیاد پر۔ اس حوالے سے اختلاف اور اس کی مدیریت کے سابق الذکر اصولوں پر اعتماد کیا جائے۔
دوسرے کے بارے میں ایسا حقیقت پسندانہ مطالعہ جو گھٹن، پوائنٹ سکورنگ، انتقام یا دوسرے کو پارہ پارہ کر دینے میں رغبت سے دور ہو اور مذاہب کے مابین علمی تعاون کی منطق سے نزدیک ہو تاکہ ایک ایسی معرفت تک پہنچا جا سکے جو زیادہ سے زیادہ غیر متعصبانہ اور پختہ ہو ۔۔۔۔ یہ سب کچھ اس بند گلی سے نکلنے کیلئے درکار ہے جس میں ہم پھنسے ہوئے ہیں۔
۳۔ ديگر مذاهب كے اچهے اور نورانى عناصر كے اظهار كا اعادہ
سودائی اور جنونی تصورات کو ختم کرنے کیلئے کہ جن کے ذریعے ہم ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں، بجائے یہ کہ ہم اپنی زندگیاں دوسرے مذاہب کی کمزوریوں کو تلاش کرنے، ان کی ترویج کرنے اور انہیں ماندگار بنانے میں صرف کر دیں؛ ضروری ہے کہ ہم انہیں مثبت نگاہ سے دیکھیں۔ ہم دوسرے کی خوبیوں کو دیکھ کر انہیں تسلیم کریں اور کمزوریوں کو دیکھنے کی صورت میں اصلاحِ فکر اور تعاون کے قصد سے تنقید کریں۔ اس کے جواب میں دوسرا بھی ہمارے ساتھ ایسا ہی کرے گا۔ پس وہ ہمارے جن خیالات و افکار کو خطا سمجھتا ہے؛ ان پر مکمل غیر جانبداری اور اخلاق و احترام کے ساتھ تنقید کرے گا اور جسے وہ درست یا قوت کا عنصر سمجھتا ہے؛ اس کا اعتراف کرے گا۔
جب دینی مکاتب فکر، مذہبی تبلیغ اور قومی ثقافت ایسا کرنے پر آمادہ ہو جائے گی تو ہم بالضرور ایک نئے دور میں داخل ہو جائیں گے۔
۴۔مذاهب كے علمى مدارس ميں روابط كا فروغ
یہ امر علماء اور دینی طلاب کی مسلسل دو طرفہ ملاقاتوں کے ذریعے حاصل ہو گا؛ ایک طرف سے ایران، عراق، بحرین، لبنان و ۔۔۔ میں اور دوسری طرف سے مصر، سعودی عرب، ملائشیا، عمان، یمن، الجزائر، مراکش و۔۔۔ میں کہ جس کا مقصد مزید تعارف، ارتباط، میل جول، اعتماد کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنا اور غلط تصورات کو محو کرنا ہے۔
رابطوں کے فروغ میں اہم یہ ہے کہ یہ برائے نام نہ ہوں اور چاپلوسی اور کانفرنس ہالوں کی ظاہری زبان تک محدود نہ ہوں بلکہ انہیں ایک دوسرے کی شناخت، ایک دوسرے کے خدشات پر تبادلہ خیال، ایک دوسرے سے گلے شکوے کرنے اور ایک دوسرے کی تشویش کو دور کرنے کے حوالے سے عمیق طور پر بروئے کار لایا جائے تاکہ ہم راہ حل پیش کرنے کی سعی کر سکیں۔
اور ضروری ہے کہ حقائق کو نہ چھپایا جائے کیونکہ یہ چیز شناخت کے قصد سے قائم کردہ بین المذاہب روابط کو ایک قسم کے کذب اور حیلے میں تبدیل کر دے گی اور بہت جلد روابط قائم کرنے کی تمام حقیقی کاوشیں ملیامیٹ ہوجائیں گی۔
۵۔جامعات اور حوزات علميه ميں “بين المذاهب چئيرز” كا افتتاح
یہ تمام مذاہب کے یہاں ہو گا اور علمی معاہدوں پر دستخط کر کے مذاہب کی مختلف دینی جامعات میں طلبہ کے وفود کو بھیجا جائے گا۔ پس سنی، زیدی، اباضی وفود مذہب امامیہ کی تعلیم حاصل کرنے کیلئے قم یا نجف کے شہروں میں تشریف لائیں گے اور شیعہ امامیہ کے وفود کو اہل سنت کے مذاہب کی تعلیم کیلئے الازہر یا مراکش کے شہروں میں یا مذہب اباضیہ کی تعلیم کیلئے سلطنت عمان میں بھیجا جائے گا۔ اسی طرح دیگر موارد میں ہو گا۔
۶۔ ايك دوسرے كے خلاف ميڈيا وار روكنے كا فوری اعلان
خاص کر سیٹلائیٹ چینلز کے حملے روکے جائیں اور اشتعال انگیز پروگرام یا نشریات کو بند کر دیا جائے۔ فتنہ پرور خطیبوں پر پابندی لگا دی جائے۔ فتنہ انگیز اور نفرت کی حامل کتب، اخبارات اور مطبوعات کی اشاعت پر قدغن لگا دی جائے۔ یہ کام اس فرد جرم کے تحت کیا جائے کہ یہ مسلمانوں کے اندر نفرت اور تفرقہ پھیلا رہے ہیں جو ان کی قتل و غارت، ناموس کی بے حرمتی اور اموال کے حلال قرار دئیے جانے کا سبب بنتے ہیں۔ اسی طرح حکومتیں اور دینی رہنما اس ہمیشگی مذاق کو ختم کرنے کیلئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔
یہاں مطلوب یہ ہے کہ ہم اپنے مذہبی مکالمے علمی بنیادوں پر منعقد کریں نہ کہ جدل، ضد بازی، شور و غوغا اور پوائنٹ سکورنگ کی بنیاد پر۔ ہر مذہب کے یہاں لغزشیں اور کمزوریاں موجود ہیں اور پوائنٹ سکورنگ کی غرض سے صرف انہی میں مشغول رہنے کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا اور جنونی تصورات کے سوا ہرگز کچھ برآمد نہیں ہو گا۔
قربتیں بڑھانے کے عمل میں ذرائع ابلاغ کا بہت بڑا کردار ہے اور اس کیلئے آگاہی بخش پروگراموں کے ذریعے ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جو اسٹریٹیجک اور بامقصد ہوں بالخصوص بچوں اور بچیوں کیلئے۔ یہ پروگرام ارتباط، میل جول، رواداری اور مشترکہ ثقافت کے پیغام کی بنیاد پر نئی نسل کی تربیت کریں گے۔
ادب اور فن بھی اپنا کردار ادا کریں؛ کہانی، ناول، شاعری، نظم، گیت، سینما گھر، ٹیلی وژن اور تھیٹر پروگراموں کے ذریعے۔ پس یہ شائستہ نہیں ہے کہ ہم اس ذمہ داری کو ہلکا سمجھیں جو ادب و فن دونوں کے کاندھوں پر ہے۔
۷۔ مذهبى رواداری ميں معروف حكومتوں كے تجربات سے استفادہ
یا نسلی رواداری میں معروف حکومتوں کے تجربات سے فائدہ اٹھانا جیسے عمان، سوڈان، لبنان وغیرہ ہیں۔ اس قسم کے تجربات اور ان کا علمی روح سے مطالعہ اور ان کی دائمی یا وقتی کامیابی کے اسباب کا سراغ لگانے سے ممکن ہے کہ اس حوالے سے انتہائی اہم معلومات تک پہنچنے میں مدد ملے۔
یہ امر اسلامی حکومتوں پر موقوف نہیں ہے بلکہ ان غیر اسلامی حکومتوں یا معاشروں کے تجربات سے استفادہ کیا جا سکتا ہے جنہیں دینی، مذہبی یا نسلی افتراق کا سامنا کرنا پڑا پھر وہ پوری قوت اور کامیابی کے ساتھ اس صورتحال سے نکل گئے جیسے شمالی آئر لینڈ ہے۔
اسی طرح ان تجربات سے بھرپور فائدہ اٹھانا اور عبرت حاصل کرنا جو ماضی میں مسلمانوں کی تقریب کے میدان میں کیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر دار التقریب قاہرہ، تقریب فورم تہران، ہفتہ وحدت اسلامی، عالمی یوم القدس اور متعدد ممالک میں علمائے مسلمین کے اجتماعات جیسے تجربات۔
۸۔ اهل سياست كو اهل مذهب سے جدا كر كے دينى شخصيات كى آزادی
اس سے ہمارا مقصود دینی شخصیات کو ممکنہ حد تک اہل سیاست کے اثر و رسوخ سے آزاد کرانا ہے تاکہ دین اور سیاست دونوں کا تحفظ کیا جا سکے۔ اس کے لیے دو چیزوں کی ضرورت ہے:
۱)عرب اور اسلامی دنیا کی سیاسی اور دینی قیادت کے باہمی تعلقات کی تنظیم نو جو آسان کام نہیں ہے؛
۲) اسی طرح دینی شخصیات اور اداروں کو اپنے فتاوی ٰ اور موقف میں سیاسی حکومت سے مزید مستقل کرنے کی جدوجہد؛
دینی قیادت کا اس معنی میں استقلال بہت بڑی ضرورت ہے، یہ بالکل آج کے کسی بھی معاصر معاشرے میں عدالتی نظام کے مستقل ہونے کی ضرورت کی مانند ہے۔
۹۔ مشتركه امور ميں اهل سیاست كى اهل دين سے وابستگى
اس سے میری مراد یہ ہے کہ معاشرے اور امت کے بڑے مسائل اور عمومی مفادات کے حوالے سے سیاسی اور دینی جدوجہد شانہ بشانہ کی جائے۔ جیسے مقبوضہ فلسطین کا مسئلہ ہے جسے عرب اور اسلامی دنیا کے بنیادی مسئلے کے عنوان سے باقی رکھنا ضروری ہے اور اسی وجہ سے مسلمان حکومت (خواہ شیعہ ہو یا سنی) کے پاس کسی بھی قسم کی طاقت ہو تو اسے تمام مسلمانوں کی طاقت سمجھنا چاہئیے، اس امر کی ضرورت ہے کہ سب کو ان سازشوں سے خبردار کیا جائے جو پوری اسلامی امت کے خلاف مختلف سطحوں پر تیار کی جا رہی ہیں کہ جن میں آج کی مختلف شکلوں کی سرد جنگ بھی شامل ہے۔
۱۰۔دينی اداروں كا پهر سے اپنے پروگرام اور ترجيحات مرتب كرنا
اس کا مطلب یہ ہے کہ دینی ادارے فرقہ واریت کی دوڑ سے نکل کر اخلاق و دین سے آزاد مکاتب کا مقابلہ کریں تاکہ ہم اپنے مسلم جوانوں کو بچا سکیں۔ اسی طرح اسلامی تہذیب میں پسماندگی اور عقب ماندگی کے مختلف مظاہر کا فکری مقابلہ کریں اور قرآن کریم کی مرجعیت پر اکٹھے کام کرنا؛ مسلمانوں کا پہلا مشترک امر ہے۔
آج مل جل کر رہنا، حب الوطنی، شراکت داری، سیاسی اور جماعتی کثرتیت، ظلم و استبداد کا خاتمہ، اقتدار کی منتقلی، غربت اور بھوک پر قابو پانا، جائز آزادی اور قانونی حقوق کا مطالبہ، سول سوسائٹی، رضا کار تنظیموں اور خیراتی اداروں کی فعالیت جیسے مسائل ترجیحات میں سے ہیں۔
اسی طرح بچوں، خواتین اور نوجوانوں کے امور، تشدد کا مسئلہ، جنسی مسائل، دوسرے کی حیثیت کو تسلیم کرنا، دولت کی منصفانہ تقسیم، جہالت کا خاتمہ اور طبقاتی ظلم کا مقابلہ حائز اہمیت ہیں۔
سائنس، ترقی، دوسرے کے احترام، وقت کی رعایت اور اس کی پابندی، کام، صفائی، نظم و ضبط، قانون کی پابندی، معاشرتی آداب، معاشرے کے اخلاقی تحفظ، باہدف اور اعلیٰ درجے کے آرٹ، محبت، آرزو اور امید وغیرہ جیسے مفاہیم کی دعوت دینا۔
پس بجائے یہ کہ ہم (اور تمام مذاہب کے بعض دینی ادارے) تاریخ اور بحث و مباحثے کی قید میں رہیں جو ختم نہیں ہو سکتا؛ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی امت کو بیدار کریں اور ایک مرتبہ پھر اپنی ترجیحات کا تعیّن کریں تاکہ نمایاں اور ممتاز علمی شخصیات اور دینی ادارے معاشرے کا ایک مفید عنصر ثابت ہوں بجائے یہ کہ وہ خود اشتعال انگیزی اور مشکل سازی کے مواد کی شکل اختیار کر لیں۔
یہیں سے تمام مذاہب کے دینی اداروں، حوزات علمیہ، اسکولوں اور جامعات کی تربیتی اور تعلیمی پروگراموں کی سطح پر اصلاح کی قطعی ضرورت ظاہر ہوتی ہے اور عصر حاضر کے تقاضوں اور امت کی ترجیحات اور مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے خطبا، مبلغین، اہل دعوت اور آئمہ جمعہ و جماعت کے اندر اہلیت پیدا کرنے کی ضرورت سامنے آتی ہے تاکہ ایک ایسی دینی سوچ اور فکر کو پیش کیا جا سکے جس سے بڑے بڑے اور سرنوشت ساز مسائل میں امت کو بیدار کیا جا سکے۔
۱۱۔ شدّت پسندوں كے مقابلے ميں اعتدال پسندوں كى كوششوں ميں يكسوئى
اس سے میری مراد یہ ہے کہ تمام مذاہب کے معتدل دینی ادارے، شخصیات اور دینی جماعتیں مذاہب کے اندر موجود شدت پسندی کا مقابلہ کرنے کیلئے متحد ہوں اور ان اسباب کا قلع قمع کرنے کیلئے عملی اقدامات اٹھائیں جن سے اسلامی معاشروں میں شدت پسند جماعتیں پیدا ہو رہی ہیں اور برداشت، محبت، الفت، تعاون اور مسلمانوں کے مابین قرب کیلئے دینی اور فکری نظریہ پردازی کے ذریعے مذہبی نفرت کے سرچشموں کو خشک کرنے کی کوشش کریں اور محبت و روادری کے حامل تمام متون کو جمع کیا جائے جو مسلمانوں کے تمام مذاہب کے یہاں کی میراث ہے تاکہ انہیں اسلامی رائے عامہ کے سامنے پیش کیا جا سکے۔
۱۲۔ مشتركه فكرى اور دينى مقاصد كيلئے سنجيدہ دينى اقدامات
اس کی تفصیل یہ ہے مثلا ایسے اداروں کا قیام جن کا ہدف مسلمانوں کے مابین مشترکہ احادیث پر مشتمل دائرۃ المعارف کی تدوین ہو، مذاہب کی فقہ مقارن اور کلام مقارن کے مواد کا جامعات اور حوزات علمیہ میں احیا، وزارت تعلیم و تربیت کی جانب سے ایسے متون کو شامل کرنے کی سعی و کوشش کہ جن سے تحمل و برداشت کا شعور اور دوسرے کے بارے میں اچھا تصور ایجاد ہو؛ یہ نصوص مدارس، جامعات اور مختلف ایجوکیشن سنٹرز کی تعلیمی و تربیتی کتب(تاریخ، فلسفہ، ادیان، جغرافیہ۔۔۔) میں شامل کی جائیں۔
امت کی پسماندگی، اسی طرح دشمنوں کی سازشوں اور اسی طرح اخلاق و عفت ۔۔۔ کے مسائل کا مقابلہ کرنے کیلئے مل کر جدوجہد کرنا بھی اسی قبیل سے ہے۔ یہ جدوجہد مشترک اداروں یا مشترک میڈیا چینلز کی تشکیل کے ذریعے کی جائے گی تاکہ اس منفی حقیقت کا سامنا کیا جا سکے جس سے امت آج اجتماعی، اخلاقی اور تربیتی۔۔۔ سطح پر دوچار ہے۔
ہماری تجویز ہے کہ بین المذاہب مشترکہ مطالعاتی مراکز قائم کیے جائیں جو عربی و اسلامی ممالک کی مشترک مشکلات کو حل کرنے کیلئے تعاون کریں۔ پس جس طرح حکومتیں دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے ایک دوسرے سے سیکیورٹی تعاون کے معاہدوں پر دستخط کرتی ہیں اسی طرح تمام دینی مذاہب کیلئے یہ ممکن ہے کہ وہ امت و۔۔۔ کی اخلاقی گراوٹ کا منظم انداز سے مقابلہ کرنے کیلئے ایک دوسرے سے تعاون کریں۔
۱۳۔ تقريب بين المذاهب كے پروگراموں ميں خانه پری سے اجتناب
اس کا مطلب یہ ہے کہ ان پروگراموں کی باگ ڈور ان لوگوں کے حوالے کی جائے جو حقیقی معنوں میں ان پر یقین رکھتے ہوں۔ ان سے سیاسی اثر و رسوخ ختم کرنے کی کوشش کی جائے اور انہیں سیاستدانوں کا آلہ کار بننے سے بچایا جائے۔
ظاہری تقریب کے اندر بے حد مسائل ہیں اور یہ موضوع بہت طولانی ہے۔ پس یہ ضروری ہے کہ ہم حقیقی اہل تقریب کا انتخاب کریں اور وہ ان تقریبی اداروں کا رخ امت کے اندر حقیقی تقریب پیدا کرنے کی طرف موڑیں۔
یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ تقریب کے پروگرام ایک ہی مذہب کے زیر انتظام ہوں۔ ایسے پروگرام بہت ہی جلد اپنی موت آپ مر جائیں گے بلکہ ہونا یہ چاہئیے کہ تقریب کے پروگراموں میں تمام مذاہب کے لوگ شریک ہوں، ان کا انتظام سنبھالیں اور ان کیلئے کام کریں تاکہ انشاء اللہ حقیقی تقریب کو حاصل کیا جا سکے۔
۱۴۔ مراجع اور فقهی مراكز كے جرات مندانه فتووں كے ذريعے ايك نئے دور كا آغاز
مراجع اور فقہی مراکز کی جانب سے ایسے واضح، صریح اور جرات مندانہ فتووں کا اجرا ایک کڑی ضرورت ہے جو مذاہب کے باہمی تعلقات کے حوالے سے ایک نئے دور کے آغاز کا پیش خیمہ ثابت ہوں۔ ابھی تک فتوے کے قوم کی نظریاتی بنیادوں پر بڑے اثرات ہیں اگرچہ اسلامی دنیا کے بہت سے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کے یہاں ان کا اثر و رسوخ آہستہ آہستہ گھٹ رہا ہے۔
۱۵۔عرب دنيا ميں غير عربى اسلامى زبانوں كو اهميت دينا اور بالعكس
ان میں فارسی، اردو، کردی، آذری، ترکی وغیرہ جیسی زبانیں ہیں، اس طرح کہ ہمارے درمیان براہ راست ایک دوسرے کے ثقافتی مظاہر سے متعارف ہونے کا عمل تیز ہو جس سے مختلف اقوام میں قربت پیدا ہوتی ہے۔ یہ جامعات، دینی مؤسسات اور تعلیمِ زبان کے مراکز کی ذمہ داری ہے۔
اس کے علاوہ بہت سے ایسے افکار، تجاویز اور سفارشات ہیں کہ جنہیں شمار کرنے کی فرصت نہیں ہے کیونکہ اس کتاب/پیغام میں ہم اختصار اور اشارہ ہی کرنا چاہ رہے ہیں۔ اس سے پہلے میں بطور کلی اپنے ادنیٰ سے مجموعی کام میں تقریب کے موضوع پر بہت کچھ لکھ اور کہہ چکا ہوں۔
۞۞۞۞۞
اس نوعیت کے پیغام کی کیا حیثیت ہے؟!
میرے محترم بھائی اور قاری! آپ کے ساتھ اس سفر کے اختتام پر فطری بات ہے کہ ہمارے ذہن میں درج ذیل سوالات پیدا ہوں:
اس طرح کے پیغام کی کیا قدر و قیمت ہے؟!
ہمیں اس طرح کی باتیں لکھ کر کیا حاصل ہو گا؟!
کیا کوئی قبول کرے گا؟!
کیا اس کا کوئی اثر ہو گا یا یہ خود جدل و مناظرے کا مواد ثابت ہو گا اور اس سے فرقہ واریت کی سوچ کو ہوا ملے گی؟!
یہ بالکل جائز سوالات ہیں اور میں آپ سے (میرے محترم قاری) یہ مخفی نہیں رکھنا چاہتا کہ میں نے اس کے بارے میں غور کیا ہے اور مجھے یہ فکر بھی لاحق ہے لیکن اس پیغام کے اختتام پر ضروری ہے کہ ہم بعض امور کی وضاحت کر دیں:
همارے پيغام كا ضمير كى آواز اور اصل ذمه داری سے موازنه
سب سے پہلے ہمارے پیش نظر وہ ذمہ داریاں ہیں جو دین، اقدار اور ضمیر کی طرف سے ہم پر عائد ہوتی ہیں کہ ہم موجودہ صورتحال پر چپ نہ رہیں اور درپیش حالات کی تبدیلی کیلئے اپنا حصہ ڈالیں اور ہم حق بات کہیں خواہ وہ خود ہماری ذات یا والدین یا رشتہ داروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو جیسا کہ ہمیں خود قرآن کریم نے اس کی تعلیم دی ہے۔
میری حقیر رائے میں اس پیغام کی ذاتی قدر و قیمت ہے اور ذاتی قدر و قیمت سے میری مراد خدا، تاریخ اور انسان کے سامنے اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہونا ہے کہ ہم نے ہر ممکنہ کام کر دیا ہے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے، ہم ایمان سے بالکل ہی ستبردار نہیں ہو جاتے اگر ہم اس کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز نہ ہو سکیں بلکہ ہم ایمان لے آتے ہیں خواہ ضعیف ترین درجہ کا ہی کیوں نہ ہو تاکہ ہم ضمیر کی راحت کو محسوس کر سکیں چونکہ اللہ کسی کو بھی اس کی وسعت سے زیادہ کی تکلیف نہیں دیتا۔
جب ہم (ضمیر کی) اس نفسانی حالت سے باہر نکل آتے ہیں تو ہم دیکھیں گے کہ ہمارے سامنے (درحقیقت) دو راستے ہیں:
یا درپیش حالات کے سامنے سرتسلیم خم کر دیں ؛
یا ہر ممکن اقدام کریں ؛
جب ہم میں سے ہر ایک خود کو ان دو راستوں کے سامنے پاتا ہے تو فطری بات ہے کہ وہ عمل، اقدام اور اپنا حصہ ڈالنے کا راستہ اختیار کرے گا کیونکہ ہار مان لینے کا نتیجہ صرف یہ نکلے گا کہ اس امت کی رہی سہی سلامتی اور آگاہی بھی جاتی رہے گی۔
سب کچه ممکن ہے، كردار كے ذريعے اثر انداز هونے كى ضرورت
ہو سکتا ہے کہ یہ پیغام اپنے ہدف پر نہ بیٹھے لیکن ہم میں سے ہر ایک اپنے کردار کے ذریعے اثر انداز ہو سکتا ہے۔ ضروری ہے کہ ہم کردار کے ذریعے مؤثر واقع ہوں۔ اگر ہمیں اس حوالے سے کامیابی نہیں ملتی تو ہمارے لیے یہ افتخار کافی ہو گا کہ ہم نے امت کی پسماندگی کو ختم کرنے کیلئے تعاون کیا ہے خواہ وہ ایک خاص حد تک ہی تھا۔ پس سکول یا یونیورسٹی کا استاد، عالم دین، صحافی، میڈیا پرسن، مصنف، باپ، ماں و ۔۔۔ ان سب کے پاس مؤثر واقع ہونے کی طاقت ہے خواہ معمولی درجے کی سہی اور ہم سب سے یہی مطلوب ہے کہ اجتماعی جدوجہد کریں تاکہ کسی مطلوبہ نتیجے تک پہنچ سکیں یا کم از کم اس پسماندہ صورتحال کا سدباب کر سکیں۔
پانی کے چھوٹے چھوٹے قطرے جب مل جاتے ہیں تو سیلاب آ جاتا ہے اور اجتماعی کام اور اجتماعی تبدیلی کے اصول و قواعد یہ تلقین کرتے ہیں: شرکت کرو خواہ ایک قطرے میں؛ کیونکہ اس کے بغیر سیلاب جاری نہیں ہو گا، اگر ہم میں سے ہر ایک پانی کے اس قطرے کے حقیر ہونے کا سوچنے لگے جسے وہ پیش کرے گا تو کوئی شخص بھی کچھ بھی پیش نہیں کرے گا اور ہرگز وہ سیلاب بھی جاری نہیں ہو گا جس سے تبدیلی آ جائے اور معاملات سلجھ سکیں۔
قرآن كريم اور پر اميد مستقبل كى منطق
یہ قرآن کریم کی بھی منطق ہے کہ مستقبل کی امید رکھو کیونکہ امید کا اثر ہوتا ہے جبکہ مایوسی ہماری قوت کو سلب کر کے ہمیں پیچھے ہٹا دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ ۞وَوَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ ۞الَّذِي أَنْقَضَ ظَهْرَكَ ۞وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ۞فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا۞إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا﴾[52]
)کیا ہم نے آپ کے سینہ کو کشادہ نہیں کیا ۞ اور کیا آپ کے بوجھ کو اتار نہیں لیا ۞ جس نے آپ کی کمر کو توڑ دیا تھا ۞ اور آپ کے ذکر کو بلند کر دیا ۞ ہاں زحمت کے ساتھ آسانی بھی ہے۞ بے شک تکلیف کے ساتھ سہولت بھی ہے (
﴿فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوتُ بِالْجُنُودِ قَالَ إِنَّ اللَّهَ مُبْتَلِيكُمْ بِنَهَرٍ فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي إِلا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةً بِيَدِهِ فَشَرِبُوا مِنْهُ إِلا قَلِيلا مِنْهُمْ فَلَمَّا جَاوَزَهُ هُوَ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ قَالُوا لا طَاقَةَ لَنَا الْيَوْمَ بِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ قَالَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلاقُو اللَّهِ كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ﴾[53]
)اس کے بعد جب طالوت لشکر لے کرچلے تو انہوں نے کہا کہ اب خدا ایک نہر کے ذریعہ تمہارا امتحان لینے والا ہے جو اس میں سے پی لے گا وہ مجھ سے نہ ہوگا اور جو نہ چکھے گا وہ مجھ سے ہوگا مگر یہ کہ ایک چلّو پانی لے لے،نتیجہ یہ ہوا کہ سب نے پانی پی لیا سوائے چند افراد کےپھر جب وہ صاحبانِ ایمان کو لے کر آگے بڑھے لوگوں نے کہا کہ آج تو جالوت اور اس کے لشکروں کے مقابلہ کی ہمت نہیں ہے اور ایک جماعت نے جسے خدا سے ملاقات کرنے کا خیال تھا کہا کہ اکثر چھوٹے چھوٹے گروہ بڑی بڑی جماعتوں پر حکم خدا سے غالب آجاتے ہیں اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے(
اور اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ ۞ فَانْقَلَبُوا بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ لَمْ يَمْسَسْهُمْ سُوءٌ وَاتَّبَعُوا رِضْوَانَ اللَّهِ وَاللَّهُ ذُو فَضْلٍ عَظِيمٍ ۞ إِنَّمَا ذَلِكُمُ الشَّيْطَانُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَاءَهُ فَلا تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ ﴾[54]
)یہ وہ ایمان والے ہیں کہ جب ان سے بعض لوگوں نے کہا کہ لوگو ں نے تمہارے لئے عظیم لشکر جمع کرلیا ہے لہذا ان سے ڈرو تو ان کے ایمان میں اور اضافہ ہوگیا اور انہوں نے کہا کہ ہمارے لئے خدا کافی ہے اور وہی ہمارا ذمہ دار ہے۞ پس یہ مجاہدین خدا کے فضل و کرم سے یوں پلٹ آئے کہ انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچی اور انہوں نے رضائے الٰہی کا اتباع کیااور اللہ صاحبِ فضل عظیم ہے۞ یہ شیطان صرف اپنے چاہنے والوں کو ڈراتا ہے لہذا تم ان سے نہ ڈرو اور اگر مومن ہو تو مجھ سے ڈرو(
یہ پیغام (جیسا کہ ہم نے مقدمے میں اشارہ کیا ہے) سب شیعوں کی نمائندگی نہیں کر رہا اور نہ ہی اہل سنت اور دوسروں کی نمائندگی کر رہا ہے۔ یہ درحقیقت (حتی اسے ایک شخص نے ہی کیوں نہ لکھا ہو) شیعوں، سنیوں اور دیگر مکاتب فکر کے ایک بہت بڑے طبقے کے عقائد و افکار سے عبارت ہے، جن میں ان کے علماء ، دانشور، متعلّمین، مفکّرین، محققین، سرگرم شخصیات، میڈیا پرسنز، مصنّفین اور دیگر معاشی طبقات شامل ہیں۔ یہ ان چیزوں سے عبارت ہے جس پر امت کا بہت بڑا گروہ ایمان رکھتا ہے اور انہیں غائب کیے جانے کی ٹھانی جا چکی ہے جبکہ شرعی، اخلاقی اور انسانی ذمہ داری کا یہ تقاضا ہے کہ یہ حاضر رہیں۔
ہم یہاں پر کسی گروہ، حکومت، جماعت یا سیاسی پارٹی کے نام پر بات نہیں کر رہے اور نہ ہی یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ جو کچھ ہم نے لکھا ہے وہ سارے شیعہ مراجع کرام یا سارے شیعہ گروہوں کی رائے کا عکاس ہے اور نہ ہی یہ اہل سنت کی فقہی مجامیع کی رائے کی نمائندگی کر رہا ہے بلکہ یہ اس امت اور اس گروہ کے صاحبان علم و عمل اور معاشرتی منصب و مقام رکھنے والے افراد پر مشتمل ایک بہت بڑے طبقے کی رائے کا ترجمان ہے اور وہ اپنے یقین و ایمان کا برملا اظہار کرتے ہیں اور ایسا ہی کیا جانا چاہئیے اور دیگر مذاہب کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہیں (بالخصوص ایسے اہل نظر اور تعلیم یافتہ افراد کی طرف جو ہمارے ساتھ ان سارے اعتقادات یا کم از کم ان میں سے زیادہ تر پر متفق ہیں) تاکہ یہ امت وہی کچھ کرے جو شائستہ ہو، اسی طرح یہ لوگ اپنے اہل مذہب کی طرف بھی ہاتھ بڑھاتے ہیں تاکہ اس چیز کو انجام دے سکیں کہ جسے اس مشکل تاریخی وقت میں انجام دینا ناگزیر ہے ورنہ ہم کسی مذہب یا لوگوں کے کسی گروہ کی رائے کو اچکنے کے چکر میں نہیں ہیں۔ ہم صرف اپنی بات کر رہے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ہم مسلمانوں اور اسی طرح مذہب امامیہ کا بہت بڑا حصہ ہیں۔
ہمارا پيغام؛ متنازعه مسائل كى مذهبى تاويلات كو چهوڑ كر دين كى نجات
یہ پیغام ایسا نہیں ہے کہ سارے معاملات کو حل کر دے اور ایسا کیونکر ہو سکتا ہے جبکہ ہم نے ہرگز یہ گمان نہیں کیا بلکہ یہ گفت و شنود کی یادداشت ہے تاکہ ہم بہتر طریقے سے معاملات کو حل کر سکیں اور متنازعہ مسائل کے حوالے سے مفصل فارمولے طے کرنے پر غور و فکر کر سکیں۔ اس طرح سے ہم اسلامی اتفاق اور ہم آہنگی کی عمارت میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔
اس خط کا یہ دعویٰ نہیں ہے کہ یہ مسلمان ممالک کی حل طلب تمام سیاسی مشکلات کو عنقریب حل کر دے گا۔ یہ اہل سیاست کا کام اور ان کی ذمہ داری ہے۔ اس پیغام کا ہدف؛ مذاہب کے مابین تعلقات کے موضوع کی دینی، اخلاقی اور فکری جہتوں پر روشنی ڈالنا ہے اور اس حوالے سے اپنا نقطہ نظر پیش کرنا ہے حالانکہ اسے یہ معلوم ہے کہ یہ مسئلے کا واحد حل نہیں ہے لیکن یہ ایک اہم پہلو ہے۔ پس ہمارا یہ دعویٰ نہیں ہے کہ آج مسلمانوں کی مشکلات دینی و مذہبی ہیں یا یہ کہ شیعہ اور سنی خدشات جن کے بارے میں ہم نے پہلے گفتگو کی ہے؛ مسلمانوں کی سختیوں کا تنہا سبب ہے بلکہ ہمارا دعویٰ یہ ہے (اور میں توجہ چاہوں گا) کہ مسلمان ممالک کی سیاسی طاقتیں مذہبی مسائل سے استفادہ کرتی ہیں تاکہ انہیں اور مذاہب کو اپنے مقاصد کا ایندھن بنا سکیں اور ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ اسے شعلہ ور ہونے سے روکیں تاکہ وہ لوگ اسے استعمال نہ کر سکیں جو دانستہ یا نادانستہ مسلمانوں کا برا چاہتے ہیں۔
یہ موضوع اعلیٰ دینی قدروقیمت کا حامل ہے کیونکہ کوئی بھی تنازعہ جو دینی یا مذہبی اشتعال انگیزی کی بنیاد پر قائم ہو؛ وہ دنیا بھر میں دین کے مقام، حیثیت، شہرت اور ساکھ پر منفی اثرات مرتب کر سکتا ہے اور اس سے الحادی اور لادین گروہوں کو یہ جواز ملے گا کہ وہ آگے بڑھ کر مزید مسلمان لڑکوں اور لڑکیوں کو اچک لیں اور انہیں لادینیت یا عبثیت یا عدمیت کی طرف لے جائیں۔ پس معاصر دنیا میں مصلحت دین کی خاطر یہ امر بہت زیادہ ضروری ہے کہ ہم باہمی تنازعات کے دینی اور مذہبی پہلو کو ختم کر دیں۔ یہ ہمارا پیغام بھی ہے اور ہدف بھی کہ جسے ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
آخر ميں تعميری تنقيد اور مزيد تجاويز كا خير مقدم
ہم اس پیغام پر اندرون و بیرون ملک سے ہونے والے تمام نرم خو علمی تبصروں کا استقبال کریں گے اور امیدوار ہیں کہ اس کے مختلف طبقات پر حقیقی اثرات مرتب ہوں گے اور یہ ایک ایسی دستاویز کی شکل اختیار کر لے گی جسے وحدت کی بنیاد قرار دیا جا سکے گا اور یہ ہماری تلخ حقیقتوں پر مثبت اثر ڈالے گی خواہ وہ چھوٹے پیمانے پر ہی کیوں نہ ہو۔
ہماری یہ خواہش ہے کہ اس ادنیٰ خط کی مسلمانوں کے مختلف مذاہب میں بازگشت سنائی دے اور مختلف مذاہب کے روشن خیال اپنے نقط نظر، خدشات، جرات مندانہ تنقید اور اپنے اور دوسروں کے بارے میں تعمیری تبصرے پیش کریں شاید کہ ہم اس علمی تعاون کے نتیجے میں ایک ایسے نقطہ نظر تک پہنچ سکیں جو زیادہ عمیق، بابصیرت اور پختہ ہو۔ انشاء اللہ تعالیٰ
یہ ہماری امید ہے اور یہ ہمارے خیالات ہیں اور یہ ہماراطرز تفکر ہے اور یہ بہتر مستقبل کیلئے ہمارا نقطہ نظر ہے اور یہ ہمارا دینی ایمان ہے جس کے ساتھ ہم اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور اللہ ہمارے قول پر گواہ ہے اور وہی توفیق عطا کرنے والا اور مددگار ہے۔
ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے اس ادنیٰ سے کام کو اپنی بارگاہ میں مورد قبول و رضا قرار دے اور ہمیں اس میں خلوص نیت، سلامتی قلب اور طہارت روح کی توفیق دے اور اسے قیامت کے دن ہماری نیکیوں کے پلڑے میں رکھے کہ جس دن نہ مال فائدہ دے گا اور نہ ہی اولاد سوائے اس کے جو اللہ کے پاس قلب سلیم کے ساتھ آیا۔
﴿آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ۞ لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ رَبَّنَا لا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا رَبَّنَا وَلا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلا تُحَمِّلْنَا مَا لا طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا أَنْتَ مَوْلانَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ﴾[55]
(رسول اس کتاب پر ایمان رکھتا ہے جو اس پر اس کے رب کی طرف سے نازل ہوئی ہے اور سب مومنین بھی، سب اللہ اور اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں (اور وہ کہتے ہیں)ہم رسولوں میں تفریق کے قائل نہیں ہیں اور کہتے ہیں: ہم نے حکم سنا اور اطاعت کی،پالنے والے ہم تیری بخشش کے طالب ہیں اور ہمیں تیری ہی طرف پلٹنا ہے۞ اللہ کسی شخص پر اس کی طاقت سے زیادہ ذمے داری نہیں ڈالتا ، ہر شخص جو نیک عمل کرتا ہے اس کا فائدہ اسی کو ہے اور جو بدی کرتا ہے اس کا انجا م بھی اسی کو بھگتنا ہے، پروردگارا!ہم سے بھول چوک ہو گئی ہو تو اس کا مواخذہ نہ فرما، پروردگارا! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جو تو نے ہم سے پہلوں پر ڈال دیا تھا، پروردگارا! ہم جس بوجھ کے اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتے وہ ہمارے سر پر نہ رکھ، پروردگارا! ہمارے گناہوں سے درگزر فرما اور ہمیں بخش دے اور ہم
پر رحم فرما، تو ہمارا مالک ہے، کافروں کے مقابلے میں ہماری نصرت فرما۔
۞۞۞۞۞۞
مؤلف کے مطبوعہ علمی شاہکار
تصنیف
- التعددية الدينية، نظرة في المذهب البلورالي
- نظرية السنة في الفكر الإمامي الشيعي، التكوّن والصيرورة
- بحوث في الفقه الزراعي
- مسألة المنهج في الفكر الديني، وقفات وتأملات
- علم الكلام المعاصر، قراءة تاريخية منهجيّة
- بحوث في فقه الحج
- حجيّة السنّة في الفكر الإسلامي، قراءة وتقويم
- فقه الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر
- دراسات في الفقه الإسلامي المعاصر(پانچ جلدیں)
- دروس تمهيدية في تاريخ علم الرجال عند الإماميّة
- إضاءات في الفكر والدين والاجتماع(پانچ جلدیں)
- حوارات ولقاءات في الفكر الديني المعاصر
- المدخل إلى موسوعة الحديث النبوي عند الإمامية (دراسة في الحديث الإمامي)
- رسالة سلام مذهبي
- الفقه القرآني في الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر
ترجمہ
- ابن إدريس الحلي، رائد مدرسة النقد في الفقه الإسلامي
- الأسس النظرية للتجربة الدينية، قراءة نقديّة مقارنة لآراء ابن عربي ورودلف أتو
- بين الطريق المستقيم والطرق المستقيمة، وجهات فلسفيّة في التعدّدية الدينية
- مقاربات في التجديد الفقهي
- المجتمع الديني والمدني
- الحج رموز وحكم
- الدولة الدينية، تأملات في الفكر السياسي الإسلامي
- الفكر السياسي لمسكويه الرازي، قراءة في تكوين العقل السياسي الإسلامي
- المجتمع الديني والمدني
مشارکت
- مجلّة دراسات قرآنية
- مجلّة صدى النهرين
- موسوعة الفقه الإسلامي طبقاً لمذهب أهل البيت(عليهم السلام)
- مجلّة فقه أهل البيت (عليهم السلام)
- مجلة أصداء
- مجلة قبسات
تحقیق
- بحوث في فقه الاقتصاد الإسلامي (تقریرات الشهید محمد باقر الصدر)
إعداد وتقديم(آمادہ سازی و مقدمہ نویسی)
- المدرسة التفكيكية وجدل المعرفة الدينية
- سؤال التقريب بين المذاهب، أوراق جادّة
- أسلمة العلوم وقضايا العلاقة بين الحوزة والجامعة
- اتجاهات العقلانية في الكلام الإسلامي
- المرأة في الفكر الإسلامي المعاصر، قضايا وإشكاليات
- العنف والحريات الدينية، قراءات واجتهادات في الفقه الإسلامي
- مطارحات في الفكر السياسي الإسلامي
- فقه الحجاب في الشريعة الإسلاميّة، قراءات جديدة
- الوحي والظاهرة القرآنية
- الإمامة، قراءات جديدة ومنافحات عتيدة
- الشعائر الحسينية، التاريخ الجدل والمواقف
نظارت
- الموضوعات في الآثار والأخبار للسيد هاشم معروف الحسنی عرض ودراسة
ویب سائیٹ: www.hobbollah.net
[1] الأنفال: 62 و 63۔
[2] الحشر : 2۲تا ۲۴۔
[3] الشورىٰ:۱۱و ۱۲۔
[4] المؤمنون:14۔
[5] يونس : 3۔
[6] يونس: 31و 32۔
[7] الفاتحہ: 5۔
[8] ابو القاسم الخوئی، منہاج الصالحين 1 : 179 ، مسئلہ نمبر: 659۔
[9] الأنعام: 59۔
[10] سبأ: 3۔
[11] بخاری، الجامع الصحيح ۴: ۱۴۶، ابوہريرہ سے منقول حدیث میں ہے:”بدا لله في الأقرع والأبرص”( اللہ کیلئے ایک گنجے شخص اور ایک کوڑھی کے بارے میں “بدا” واقع ہوا) اور احادیث نبوی کے بعض شارحین نے “بدا” کے تصور کی وہی تفسیر کی ہے جو امامیہ نے کی ہے۔
[12] الفتح: 21۔
[13] البقرة : 255۔
[14] الشّورىٰ:51۔
[15] الكهف : 109۔
[16] الأنعام : 103۔
[17] آل عمران:۱۸۔
[18] النّساء: ۵۸۔
[19] النّحل:۹۰۔
[20] الحديد:۲۵۔
[21] فاطر:۲۴۔
[22] ملاحظہ کیجئے (بطور مثال): السيرة الحلبيّة ۱: ۴۶۰و ۴۶۱۔
[23] ملاحظہ کیجئے (بطور مثال):صحيح بخاری : ۴: ۲۰۸۔
[24] ملاحظہ کیجئے (بطور مثال):مسند احمد: ۱: ۱۱۸۔
[25] ملاحظہ کیجئے (بطور مثال) مسند احمد: ۳: ۱۴۔
[26] ملاحظہ کیجئے (بطور مثال) خطيب بغدادي، تاريخ بغداد: ۱۲: ۹۰۔
[27] ملاحظہ کیجئے (بطور مثال) طبرانی، معجم الكبير ۲۲:۷؛ ہيثمی، مجمع الزوائد۹: ۱۷۴۔
[28] ملاحظہ کیجئے (بطور مثال) مسند احمد ۵: ۹۲؛ وسنن ترمذی ۳:۳۴۰۔
[29] المائدة: ۵۵۔
[30] الأحزاب:۳۳۔
[31] الشوریٰ:۲۳۔
[32] يوسف:۹۷و۹۸۔
[33] النّساء:۴۸۔
[34] الزّمر: 53۔
[35] مقصود یہی ہے کہ مخالفین کی چھیڑ خانی کے قصد سے ایسا نہ کیا جائے(مترجم)۔
[36] المشہدی، المزار الكبير 2 : 591۔
[37] حرّ عاملی،رسالة فی معرفۃ الصحابة: 2۔
[38] نصر بن مزاحم، وقعۃصفين: 103 ؛ ونوری، مستدرك الوسائل 12 : 306۔
[39] بحر العلوم، بلغة الفقيه 3 : 206 و 207۔
[40] بعنوان مثال مراجعہ کریں: طبرسی، جوامع الجامع 3 : 5۹6۔
[41] الأنعام:۱۶۴۔
[42] الإسراء:۱۵۔
[43] آل عمران:۷۵۔
[44] المائدة:۸۲۔
[45] المائدة:۲۔
[46] المائدة:۸۔
[47] یہ اس حدیث کی طرف اشارہ ہے: قال الصادق عليهالسلام: ان عندنا الجامعه، و قال ابوبصير: جعلت فداک و ما الجامعه؟قال: صحيفه طولها سبعون ذراعا بذراع رسولاللَّه صلي اللَّه عليه و آله و املائه و خط علي بيمينه، فيها کل حلال و حرام و کل شي يحتاج الناس اليه حتي الارش في الخدش…. بےشک ہمارے پاس “الجامعۃ” ہے، ابوبصیر نے عرض کیا: میں آپ پر قربان! “الجامعۃ” کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ایک صحیفہ ہے جس کا طول ستر ہاتھ ہے، رسول اللہ کے دست مبارک کے حساب سے، اسے رسول اللہ نے املا کرایا اور علی نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہے، اس میں ہر حلال و حرام اور ہر چیز ہے جس کی لوگوں کو ضرورت ہوتی ہے یہاں تک کہ چھوٹی سی خراش کی دیت بھی اس میں ہے۔۔۔ (اصول کافی، ج 1، ص 239، ح 1- بصائر الدرجات، ص 152، ح 3- بحارالانوار، ج 26، ص 38 ح 70) (مترجم)
[48] پس معلوم ہوا کہ مصنف مروّجہ مغربی پلورلزم کی تائید نہیں بلکہ نفی کر رہے ہیں کیونکہ اس میں کلمہ شہادتین کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔(مترجم)
[49] مقصود یہ ہے کہ جب ہر فرقے کے لوگ اپنے ہم مسلک اور ہم عقیدہ لوگوں کی محفل یا مجلس میں ہوتے ہیں تو اظہار عقیدہ اور انجام عمل کے حوالے سے آزادی اور امن وامان محسوس کرتے ہیں۔(مترجم)
[50] كافی ۱: ۱۶۶؛ توحيد۴۱۴ و ۴۱۵۔
[51] البرقی، محاسن 1 : 136 ، 203۔
[52] الانشراح: ۱تا ۶۔
[53] البقرة:۲۴۹۔
[54] آل عمران:۱۷۳تا ۱۷۵۔
[55] البقرۃ: ۲۸۵و ۲۸۶۔