حیدر حب اللہ
مترجم: محمد عباس ہاشمی
سوال: میرے دوست نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ قرآنی قصّوں پر ہمارا ایمان کیونکر ممکن ہے حالانکہ انہیں انسان شناسی (Anthropology) کے علوم مثال کے طور پر علم الآثار (Archaeology) وغیرہ میں ثابت نہیں کیا جا سکا جیسا کہ یہ مغربی جامعات میں علمی تحقیقات کے حوالے سے ایک عادی امر ہے (کہ وہ ہر چیز کو تجربے کی کسوٹی پر رکھتے ہیں) اور اگر آثار کا وجود ثابت بھی ہو جائے تو ہم کس طرح ثابت کریں گے کہ یہ صحیح آثار ہیں کیونکہ ممکن ہے کہ یہ سمیریوں کے آثار کی طرح صرف بے بنیاد باتیں ہوں؟ اور وہ یہ بھی کہتا ہے: کیسے ممکن ہے کہ ہم بیالوجی دان سے بات کر سکیں جب قرآن یہ کہہ رہا ہے کہ عصا سانپ بن گیا حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ ان میں سے ہر نوع کے جین (Genes) ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں؟
جواب: یہ مسئلہ انتہائی سادہ ہے:
أ۔ جب آپ کے نزدیک ایک منطقی و قانع کنندہ دلیل کے ذریعے یہ ثابت ہو چکا کہ قرآن اللہ کی طرف سے ہے، حقِ مطلق ہے اور باطل نہیں کہتا اور یہ قصے ان حقائق کی خبر دے رہے ہیں جو وقوع پذیر ہو چکے ہیں تو طبیعی امر ہے کہ آپ اس کے تمام مطالب کی تصدیق کریں گے خواہ جدید سائنسی مطالعات کے ذریعے انہیں ثابت نہ بھی کیا گیا ہو کیونکہ ایسا نہیں ہے کہ یہ مطالعات اور تحقیقات ہر چیز کو ثابت اور تمام تر مسائل کو حل کر چکے ہوں۔ یہ ابھی تک ترقی کے مراحل طے کر رہے ہیں ۔ ہمیں حقیقت بین ہونا چاہئیے اور پراپیگنڈے سے دوری اختیار کرنی چاہئیے۔ آپ کے سوال کی رو سے مفروضہ یہ ہے کہ ان مطالعات سے قصّے کی صحّت ثابت نہیں ہوتی نہ یہ کہ انہوں نے دلیلوں کے ذریعے ان قصوں کے بطلان کو ثابت کر دیا ہو اور دونوں صورتوں میں فرق ہے۔
اس بنا پر آپ کی شناخت کا ذریعہ ہرگز صرف “علم آثار” اور اس جیسی چیزیں نہیں ہوں گی بلکہ آپ شناخت کے ایک جدید منبع پر ایمان رکھتے ہیں اور وہ ہے قرآن (نص)۔ جب آپ کے نزدیک منطقی انداز سے یہ ثابت ہو چکا کہ یہ منبع و مصدر صحیح ہے تو قدرتی بات ہے کہ آپ اس میں جو کچھ ہے؛ اسے اخذ کریں گے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ آپ کے پانچ دوست آپ کو یہ خبر دیں کہ آپ ثانوی امتحان میں کامیاب ہو گئے ہیں لیکن دوسرے پانچ دوست اس موضوع سے بالکل بے خبر تھے بلکہ اپنے گھروں میں سو رہے تھے تو یہ بدیہی امر ہے کہ ان کے اطلاع نہ دینے سے، پہلے گروہ کی خبر نہ باطل ہو گی اور نہ ہی ساقط ہو گی۔
ب۔ اگر آپ کو ان ادلہ کے منطقی ہونے کا یقین نہیں ہے جو قرآن کے اللہ سے منسوب ہونے کی درستگی پر قائم کی گئی ہیں اس عنوان سے کہ یہ حقِّ مطلق اور صدق محض ہے اور آپ یہ سمجھتے ہوں کہ قرآن کریم صرف محمد بن عبد اللہ ؐ کی عقل کا نتیجہ ہے یا یہ عقیدہ اختیار کر لیں کہ یہ سچ مچ اللہ کی طرف منسوب ہے لیکن اس کی داستانیں خیالی ہیں یا کہانیاں ہیں کہ جن کا ہدف تربیتی ہے اور ان کا ہدف تاریخ کی خبر دینا نہیں ہے تو اس صورت میں یہ طبیعی بات ہے کہ آپ اس دینی کتاب کی داستانوں پر اس عنوان سے کہ یہ دستاویزات ہیں جو ہمیں ان واقعات کی خبر دے رہی ہیں جو بالیقین واقع ہو چکے ہیں؛ ایمان نہیں رکھیں گے خواہ علوم فطریہ (Natural Sciences)ان داستانوں کے مضمون سے متعلق کچھ کہیں یا نہ کہیں۔ پس دونوں صورتوں کی بنا پر اس مسئلے میں علوم فطریہ (Natural Sciences) اور بشریات (Humanities) اثر انداز نہیں ہو سکتے۔ معیار صرف یہ ہے کہ آپ دو چیزوں پر مطمئن ہو جائیں:
اول: اس کتاب کی اللہ کی طرف نسبت صحیح ہے۔
دوّم: جن دلالتوں کے ذریعے یہ قصے بیان ہوئے ہیں؛ وہ طبیعی ہیں۔
پس آپ کے سامنے دو صورتیں ہیں: یا نبوت، اعجاز اور اس قسم کے امور کے ذریعے آپ کیلئے منطقی انداز سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ قرآن کریم شناخت کا منبع و ذریعہ ہے تو یہ طبیعی امر ہے کہ آپ اس سے معلومات اخذ کریں گے اور اس سے معلومات لے کر اپنے ذخیرہ معلومات میں اضافہ کریں گے۔ اس صورت میں جو کچھ قرآن نے آپ کیلئے نقل کر دیا، اسے ثابت کرنے کے حوالے سے دوسرے علوم کے سکوت یا عدم سکوت کا کوئی اثر نہیں ہو گا جب تک یہ علوم، قرآنی معلومات کے برعکس کوئی بات پیش نہ کر دیں۔
اور یا آپ کے نزدیک قرآن کا ذریعہ علم و شناخت ہونا ثابت نہیں ہے۔ اس مقام پر مندرجہ بالا اشکال کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ قرآن آپ کے نزدیک ایک ایسی کتاب ہو گی جسے ایک شخصیت نے چودہ سو سال قبل لکھا تھا اور آپ کو اس کے خدا کی طرف سے ہونے کا یقین نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ ایک کتاب ہے اور شناخت کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ شناخت ہونے کے عنوان سے اس کی کوئی علمی حیثیت نہیں ہے خواہ شناخت کے دیگر ذرائع اس کی داستانوں کے بارے میں بات کریں یا نہ کریں۔
میرے لیے ضروری ہے کہ میں ایک انتہائی اہم مسئلے کی طرف اشارہ کروں جس پر فکری مباحثے بکثرت کیے جاتے ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وہ تنہا منبع و مصدر جس پر ہم اپنے علم کی بنا رکھ سکتے ہیں وہ جدید علوم فطریہ (Natural Sciences) اور بشریات (Humanities) ہیں کہ جن کا عصر حاضر میں سب سے بڑا ترویج کنندہ مغرب ہے۔ اس امر پر یقین کے بعد ان لوگوں نے کسی بھی دوسری چیز کا اپنے مورد اطمینان معیار پر مقایسہ کرنا شروع کر دیا اور یہ طبیعت کے عین مطابق ہے۔ اگر کوئی دینی نص وارد ہو تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے مگر یہ کہ اسے ثابت کرنے کیلئے اِسی ترازو پر رکھا جائے۔ اگر وہ اسے ثابت نہ کرے تو اس کی کوئی علمی حیثیت نہیں ہو گی۔
ان کے اس عمل پر کوئی قابل ذکر اعتراض نہیں ہے، یہ عمل صحیح اور منطقی ہے۔ اہم چیز یہ ہے کہ جب ان کے ساتھ گفتگو ہو تو اس امر کہ شناخت کا بلاشرکت غیرے مرجع یہی علوم ہیں؛ پر ان کے اطمینان کی فلسفیانہ بنیادوں کے بارے میں بات کی جائے ۔ ایک دیندار اور ایک ملحد کی گفتگو (معاصر معنی مقصود ہے جو کلمہ الحاد کو وسعت دیتا ہے اور اس سے مراد فقط اللہ کا انکار نہیں ہے) جب ادھر ادھر کے خاص اختلافی نکات میں ہو گی یا دینی مسئلے میں ادھر ادھر کے اختلافات کے بارے میں ہو گی تو ہرگز ختم نہیں ہو گی اور بعض اوقات نتیجہ خیز بھی نہیں ہو گی کیونکہ ملحد دیندار سے یہ مطالبہ کرے گا کہ اس کے سامنے ان معیارات کے مطابق کسی چیز کو ثابت کرے کہ جن پر وہ یقین رکھتا ہے۔ پس وہ دیندار کو اپنے معیارات کا پابند کرے گا۔ اگر وہ اس کے معیارات کے مطابق کوئی دلیل پیش نہ کر سکا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ متدیّن شخص کی باتیں باطل ہیں اور یہ قیاس کی رو سے تو درست ہے لیکن اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ بات چیت کو مفید بنانے کیلئے اور اس میں ملتے جلتے مناظر کی تکرار سے بچنے کی غرض سے ہمیں مبانی اور اصولوں پر بحث کرنی چاہئیے۔ مبانی کی بنیاد پر بحث جیسے یہ بحث کی جائے کہ آیا ماڈرن سائنس کو شناخت کا بلا شرکت غیرے مرجع فرض کیا جائے یا نہیں؟! یا فلسفے کو شناخت کا شکست خوردہ مرجع فرض کیا جائے یا نہیں؟! یا دینی نص کو شناخت کا باطل مرجع قرار دیا جائے یا نہیں؟! یا نظری فزکس جیسے علم کو خالص تجربیاتی کاوش قرار دیا جائے یا اپنی ذات میں فلسفیانہ سرگرمی؟!۔۔۔۔ وغیرہ۔
پس ضروری ہے کہ بحث Epistemological (نظریہ علم و علمیّات سے متعلّق) ہو وگرنہ ایک دوسرے کے خلاف تکراری باتیں کرنے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو گا اور ہم ہرگز کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکیں گے۔
اس بات کی زیادہ وضاحت کیلئے ہم تصویر کا دوسرا رخ دیکھتے ہیں اور یہ فرض کرتے ہیں کہ دیندار شخص جو دینی نص(قرآن، انجیل یا تورات۔۔۔) کے علاوہ کسی دوسرے ذریعہ علم و شناخت پر ایمان نہیں رکھتا۔ پھر (Natural Sciences) آ کر کسی چیز کو ثابت کریں جیسے سورج ہائیڈروجن، ہیلیم اور چند دوسری گیسوں کا مجموعہ ہے۔ یہاں دیندار اپنے مد مقابل سے یہ کہے گا: کیا تیرے لیے ممکن ہے کہ تو دینی نص سے میرے لیے یہ ثابت کر دے کہ سورج ہائیڈروجن، ہیلیم وغیرہ سے بنا ہے؟ اگر تیرے لیے یہ ممکن ہوا تو میں تیرے ساتھ ہوں اور اگر تو نہ کر سکا تو میں علوم فطریہ (Natural Sciences) کے نتائج پر یقین نہیں کروں گا اور تیرے دعووں کو باطل اور شرمناک سمجھوں گا۔۔۔ پھر مدمقابل اسے جواب دے گا: میں یہ چیزیں دینی نص سے تمہارے لیے ثابت نہیں کر سکتا بلکہ میں صرف سائنس کے ذریعے انہیں ثابت کروں گا۔ تو کیا اس نکتے پر ان کی بحث نتیجہ خیز ہو سکتی ہے؟!
یہاں فرض یہ نہیں ہے کہ ہر شخص دوسرے کو اپنے طریقے سے مطمئن ہونے کا پابند کرے بلکہ انہیں اس میں بحث کرنی چاہئیے کہ وہ کون سے قابل اعتماد منابع و مصادر ہیں جن کے ذریعے فلاں مسئلے میں درست نتائج تک پہنچا جا سکتا ہے؟ تو کیا دینی نص تاریخ اور کائنات کے مورد میں شناخت کا ذریعہ ہے یا نہیں؟ اور کیا علوم فطریہ (Natural Sciences) غیب کے مورد میں شناخت کے مصدر ہیں یا نہیں؟ بحث کا مرکزی نقطہ یہیں ہے اور جب تک گفتگو اس نقطے کی طرف منتقل نہیں ہو گی تو اس قسم کے سارے یا زیادہ تر مکالمے تکراری اور جدلی ہی لگیں گے ۔۔۔ ۔
یہاں سے پتہ چلتا ہے کہ عصا کے سانپ بن جانے کو ہرگز قبول نہ کرنے والے بیالوجی دان کے عدم اطمینان کا بدیہی طور پر یہ مطلب نہیں ہے کہ دینی تفکّر اور فکر ضعیف ہے۔ اسی طرح اگر ایک دیندار شخص موروثی جین (Genes) کے نظریے کو قبول نہ کرے چونکہ یہ مثال کے طور پر قرآن میں نہیں ہے تو اس سے بیالوجی دان کی ناتوانی ثابت نہیں ہوتی، نہ ہی اسے اپنے یقین و اطمینان کو خیرباد کہنا پڑے گا اور نہ ہی اس کے کلام کا بےہودہ ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اس کا سبب واضح ہے کہ ان کے ایک دوسرے کو مطمئن کرنے سے عاجز ہونے کا سبب اس کے تفکر کی ناتوانی نہیں ہے بلکہ اس کا سبب یہ ہے کہ جن ذرائع اور آلات پر طرفین نے اعتماد کیا ہے وہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ یہ اس شخص کی مثل ہے جو یہ کہے: مجھے فرشتے کی آواز سنوا کر میرے لیے یہ ثابت کرو کہ زید نے عمرو کو قتل کیا ہے۔ اگر ہم اس کی خواہش پوری کرنے سے عاجز ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری فکر باطل ہے؟! یا یہ کہ پہلے اسے اس امر پر قائل کرنے کیلئے بحث کی جائے کہ عدالت میں اس واقعے کو ثابت کرنا؛ فرشتوں کی آواز سننے میں منحصر نہیں ہے۔
ہاں! اگر سائنس ایسی معلومات پیش کرے جو داستانوں میں دین کی بیان کردہ خبروں کے بطلان کو ثابت کر دے تو یہ بالکل ایک دوسری چیز ہے۔ لہٰذا امور کو ایک دوسرے کے ساتھ مخلوط نہ کیا جائے۔