حیدر حب اللہ
مترجم: محمد عباس ہاشمی
سوال: کیا قرآنی سورت اور اس کے اسم کا ایک دوسرے سے کوئی تعلق ہے کہ جس کے باعث لوگوں نے سورہ برائت کا نام بدل کر سورہ توبہ رکھ دیا ہے ؟ اور اسی طرح ابن عباس کا یہ قول بھی ہمیں ملتا ہے کہ سورۃ برائت کے بہت سے اسماء جیسے قاصفۃ اور ماحقۃ وغیرہ ہیں۔براہ کرم !اپنے نقطہ نظر سےسورت اور اس کے اسم کے مابین تعلق کی وضاحت فرمائیں؟!
جواب: تفسیر فرقان کے مؤلف شیخ صادقی طہرانی رضوان اللہ علیہ کی طرح بہت کم علما نے قرآنی سورتوں کے اسماء کے توقیفی ہونے کا نظریہ اختیار کیا ہے۔ بہرحال علمائے مسلمین کے مابین مشہور یہی ہے کہ سورتوں کے اسماء غیر توقیفی ہیں جیسا کہ میں نے اپنے تفسیر کے دروس میں بیان کیا ہے، پس ان اسماء کے اس حیثیت سے منصوص من اللہ ہونے پر کوئی دلیل نہیں ہے کہ یہ نام رکھنا توقیفی پہلو کا حامل ہو اور اصالتِ برائت، سورتوں پر مبدأ کے اعتبار سے جدید اسماء کا اطلاق جائز قرار دیتی ہے بلکہ بعض علماء جیسے سید شہید صدر ثانی رحمہ اللہ اپنی بعض فقہی تحقیقات میں کچھ اسماء کے متعیّن ہو جانے کی نسبت اظہارِ ناپسندیدگی کرتے ہیں پس ان کے نزدیک بعض قرآنی سورتوں کا نام حیوانات کے ناموں پر رکھنا نامناسب ہے جیسے بقرۃ، نمل، نحل، عنکبوت اور فیل۔ یہی وجہ ہے کہ شریف رضی ؒ جیسے بعض علما سورتوں کا ذکر کرتے وقت یہ کہتے ہیں: وہ سورت جس میں گائے کا تذکرہ ہے، یا وہ سورت جس میں انبیاء کا ذکر ہے یا وہ سورت جس میں ہاتھی کی داستان ہے۔
مزید برآں ہمارے پاس اس امر پر کوئی دلیل نہیں ہے کہ مصاحف میں موجود سورتوں کے اسماء کو عصر تابعین سے قبل تدوین کیا گیا تھا بلکہ اس زمانے میں سورتوں کے آغاز اور اختتام کی شناخت کیلئے صرف بسملۃ(بسم اللہ الرحمن الرحیم) لکھنا ہی رائج تھا۔ اس سے پتہ چل جاتا تھا کہ ایک سورۃ ختم ہو گئی ہے اور دوسری شروع ہو گئی ہے۔ اسی لیے بعض علما کے نزدیک سورۃ فیل اور سورہ قریش ایک ہیں اور ان کی دلیل یہ ہے کہ ابیّ بن کعب کے مصحف میں ان دونوں کے بیچ “بسملۃ” نہیں ہے اور مصاحف میں سورتوں کے اختتام اور آغاز کے مروجہ طریقہ کار کی رو سے اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ یہ دونوں ایک ہی سورت ہیں۔ اسی لیے علما نے اس دلیل پر یہ اعتراض کیا ہے کہ دوسرے مصاحف کے ساتھ ساتھ مصحفِ أبی بن کعب کے دوسرے نسخے میں (ان دونوں سورتوں کے درمیان) “بسملۃ” ثابت ہے۔
اس ساری بحث سے معلوم ہوا کہ عصر تابعین سے قبل ہمارے آج کے مصاحف کی طرح سورت کی ابتدا میں اس کا کوئی نام تحریر نہیں کیا جاتا تھا۔
نبی کریمؐ ، اہل بیت ؑ اور صحابہ سے منقول روایتوں کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ متعدد طریقوں سے سورت کا ذکر کرتے تھے۔ اکثر اوقات اس طریقے سے ذکر کرتے تھے: وہ سورۃ جس میں فلاں اور فلاں وارد ہوا ہے یا مطلع کو سورۃ کا عنوان قرار دیتے تھےجیسے: تبت یدا أبی لھب و تب والی سورت، یا و الضحٰی والی سورت، یا ألم تر کیف فعل ربک بأصحاب الفیل والی سورت، و علی ہذا القیاس اور کبھی اسم کا ذکر کرتے ہیں جیسے سورۃ اخلاص لیکن اس امر پر کوئی دلیل نہیں ہے کہ یہ اسماء شرعی بُعد کے حامل ہیں۔ ممکن ہے کہ ان اسماء کا اطلاق بسبب اختصار لوگوں میں معروف ہو گیا ہوپس نبی کریم ؐ اہل بیت ؑ اور صحابہ کسی خاص سورۃ کی طرف اشارہ کرنے کی غرض سے انہیں استعمال کرتے ہوں کیونکہ قران کریم اور تشریعی اصولوں کے منافی و مخالف نہ ہونے کی صورت میں اسماء کی تعیین کسی خصوصی حیثیت کی حامل نہیں ہے اور اسی طرح سورۃ کا نیا نام رکھنے سے منع بھی نہیں کیا گیا۔
لہٰذا میرے نزدیک یہ قول زیادہ صحیح ہے کہ سورتوں کے اسماء کا کوئی شرعی یا تعبّدی یا توقیفی بُعد نہیں ہے جب تک ہمیں کوئی ایسی قابل اعتماد حدیث نہ مل جائے جو کسی خاص سورۃ میں اسم کی توقیفیت کو ثابت کرے اور نبی ؐ اور ان کے اہل بیت ؑ کی جانب سے کسی اسم کو صرف استعمال کرنے سے اس وقت تک اس کا شرعی بعد مراد نہیں ہے جب تک اس پر کوئی قرینہ یا شاہد قائم نہ ہو جائے۔ اسی لیے ابن عباس کے قول (اگر یہ روایت صحیح ہو) کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان اسماء کی تعیین اللہ کی طرف سے ہے اور انہیں مخفی رکھا گیا بلکہ (ان کی مراد) یہ ہو سکتی ہے کہ عصر نبوی میں آپ ؐ کی ممانعت کے بغیر ان اسماء کو ان سورتوں کیلئے استعمال کیا جاتا رہا پھر یہ مخفی ہو گئے۔
اس بحث سے آپ کے سوال کا جواب روشن ہو جائے گا کیونکہ اگر اسماء کی تعیین منجانب اللہ اور تعبّدی ہوتی تو سورت اور اس کے اسم کے مابین تعلق کی بحث شرعی و دینی بُعد کی حامل ہوتی لیکن جب اسماء کی تعیین کا الٰہی و تعبّدی ہونا ثابت نہیں ہے سوائے اس کے جس پردلیل ہو، تو ان اسماء کے بارے میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں نے نبی ؐ کے سامنے یا ان کے ساتھ مل کر سورتوں کی طرف اشارہ کرنے کی غرض سے مختصر اسماء متعین کرنے پر انسان ہونے کےلحاظ سے اتفاق کیا تھا۔ پس اسم اور سورۃ کے باہمی ربط کا فلسفہ کشف کرنے کیلئے خود کو عمیق تحلیلوں کے ذریعے ہلکان نہ کیا جائے۔ لہٰذا سورۃ بقرہ کا اسم گائے کی داستان جو اس سورۃ کے پیش کردہ بہت سے موضوعات کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے؛ کی علامت نہیں ہے۔ اس بنا پر جب تک اسماء کی تعیین کے وحیانی پہلو پر کوئی دلیل قائم نہ ہو جائے، اس وقت تک از قبل ثابت شدہ اساسی دلیل و برہان کے بغیر فلسفہ تعیینِ اسماء کی بحث میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔