عزاداری کے بارے میں سوالات
استاد حیدر حب اللہ
کے جوابات
مترجم: کاچو نوازش علی خان
پیشکش : ادارہ آگاہی و شعور(پاکستان)
زیارت وارثہ میں وراثت سے مراد
سوال: زیارت وارثہ کے اس جملے “السّلام عليک يا وارث آدم صفوة الله” میں وراثت سےکیا مراد ہے؟
جواب : عرف عام کی نظر میں مندرجہ بالا جملے میں وراثت کا مفہوم یہ ہے کہ امام (عليه السلام)، انبیاء کرام (عليهم السلام) کے علم ، اخلاق ، کمالات اور صفات حسنہ کے وارث ہیں ، مثال کے طور پر اگر آپ کہیں کہ فلاں عالم انبیاء (عليهم السلام) کا وارث ہے تو اس سے مراد اس علم کا وارث ہونا ہے جو انبیاء (عليهم السلام) چھوڑ گئے ہیں۔ پس زیارت وارثہ میں وراثت کے جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں یہ امام کے گذشتہ انبیاء (عليهم السلام) کی وراثت اور ذمہ داریوں کے وارث ہونے کی نشاندہی کرتےہیں اور یہ کہ امام انبیائے کرام (عليهم السلام) کی پاکیزہ جماعت کے حقیقی وارث ہیں ۔ جبکہ یہ الفاظ نہایت مؤثر اور فصاحت وبلاغت کے حامل ہیں۔ (اضاءات جلد ۱ ، صفحہ ۲۱۸)
امام حسین (عليه السلام) کی زیارت کی خاطر پیدل چلنا
سوال: آئمہ طاہرین (عليهم السلام) سے منقول احادیث میں امام حسین (عليه السلام) کی زیارت کو جانے کے لیے لفظ “ماشياً” استعمال ہواہے، کیا ہم اس لفظ سے پیدل چلنے کی بجائے، جانے اور زیارت کی خاطر زحمت اٹھانے کا مفہوم لےسکتے ہیں۔ جیسا کہ ہم کہتے ہیں کہ (فلان مشی إلی المسجد) یعنی فلاں شخص مسجد گیا اگر یہ معنی مراد لیں تو پیدل زیارت کرنے کے استحباب کو ثابت کرنا مشکل ہوگا؟
جواب: مذکورہ مفہوم،بعض روایات سے مراد لیا جاسکتا ہے اور یہ مفہوم عرف عام کے ہاں قابل قبول بھی ہے۔لیکن دیگر روایات میں واضح طور پر اپنے قدموں پر چلنے کا ذکر آیا ہے،اس لیے مذکورہ معنی مراد لینا مشکل ہوگا۔قطع نظر اس کے کہ یہ روایات سند کے اعتبار سے صحیح ہیں یا نہیں۔
انہی روایات میں سے ایک روایت ابی سعید قاضی سے منقول ہے ،جس میں کہتے ہیں کہ میں امام صادق (عليه السلام) کے کمرے میں داخل ہوا تو میں نے آپ (عليه السلام) کو یہ فرماتے سنا: (مَنْ أَتَی قبْرَ الحُسين ماشِياً کَتَبَ اللهُ لَهُ بِکُلِّ خُطْوَةٍ وَبِکُلِّ قَدَمٍ يَرْفَعُهَا وَيَضَعُهَا عِتْقَ رَقَبَةٍ مِنْ وُلْدِ إِسْمَاعِيْلَ)
ترجمہ: جس نے امام حسین (عليه السلام) کی قبر کی پیدل زیارت کی، اللہ تعالی اس کے ہر اٹھنے والے قدم کے بدلے میں اولاد اسماعیل (عليه السلام) سے ایک غلام آزاد کرانے کا ثواب دے گا۔ (وسائل الشیعہ، ج۱۴، ج۴۴۱)
اسی طرح حسن بن ثویر ابن ابی فاختہ سے روایت ہے کہ امام صادق (عليه السلام) نے فرمایا (يا حسن: ﺇنّه من خرج من منزله يريد زيارة قبر الحسين بن علي، إن کان ماشيا کتب له بکل خطوة حسنة، محى عنه سيئة فإن کان راکباً کتب الله له بکل حافرٍ حسنة وحط بها عنه سيئة حتى اذا صار في الحاير کتبه الله من المفلحين المنجحين، حتى ﺇذا قضى مناسکه کتبه الله من الفائزين، حتى اذا أراد الانصراف أتاه ملک، فقال له: ان رسول الله (صلى الله عليه وآله) يقرؤک السلام ، ويقول لک : ﺇستأنف العمل فقد غفر الله لک ما مضى)
ترجمہ : اے حسن بن ثویر!جوشخص اپنے گھر سے قبر حسین (عليه السلام) کی زیارت کی خاطرنکلتا ہے اللہ تعالی ہر قدم کے بدلے میں اسے ایک نیکی عطاء فرماتا ہے اور اس کا ایک گناہ معاف فرماتاہے۔ اگر وہ سوار ہوکر سفر کرے تو اس کی سواری کے ہر قدم کے بدلے ایک نیکی اس کو بخش دیتا ہے اور اس کے ایک گناہ کو مٹا دیتا ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ حرم امام (عليه السلام) کے صحن میں داخل ہوجائے تو اللہ تعالی اسے کامیاب اور کامران ہونے والوں میں سے قرار دےدیتا ہے اور جب وہ زیارت کے اعمال بجالائے تو اسے نجات پانے والوں کی فہرست میں شامل کردیتا ہے اور جب واپسی کا ارادہ کرے تو ایک فرشتہ اس کے پاس آکر اسے کہتاہے کہ اللہ کے رسول (صلى الله عليه وآله) نے آپ کےلیے سلام بھیجا ہے اور فرمایا ہے کہ اب نئی زندگی کا آغاز کرو، خدانے تمہارے گذشتہ گناہوں کوبخش دیا ہے۔( صدوق ، ثواب الاعمال:۹۱)
اس دوسری روایت کے مطابق پیدل چلنے والی کی نیکیاں زیادہ ہونگی کیونکہ انسان ،سواری کی نسبت چھوٹے قدم بھرتا ہے، پس چھوٹے قدم، بڑے قدموں کی نسبت زیادہ ثواب کے حامل ہیں۔ اگرچہ پہلی روایت سے یہ مفہوم نہیں سمجھ آتا بلکہ اس میں پیدل چلنے کو سفر کا ایک طریقہ اور انداز قرار دیا گیاہے۔ (اضاءات ، جلد ا صفحہ ، ۳۱۵)
زنجیر زن ماتمیوں کے نام خط
میرے ماتمی ( زنجیر زن ) بھائی: میں زنجیر زنی کے حوالے سے آپ کی آزادی کا دفاع کرتا رہوں گا ۔ مجھے قبول نہیں کہ کوئی آپ کو اس عمل سے روکے جب تک آپ اسے درست سمجھتے ہیں،اور میں اس پر بھی راضی نہیں کہ کوئی آپ کو صرف اس عمل کی وجہ سے زندان میں قید کر دےیا اسے کوئی ناقابل معافی جرم سمجھے۔ میں اپنے آپ کو یہ حق ہرگز نہیں دیتا کہ آپ کو زنجیر زنی کی وجہ سے دین یا مذہب سے خارج سمجھوں ۔ جو شخص بھی آپ کے بارے میں برائی کا ارادہ کرے میں اس کے مقابلے میں آپ کا دفاع کروں گا ، میں آپ سے محبت کرتا رہوں گا چاہے آپ راضی ہوں یا نہ ہوں۔ میں آپ کو اللہ اور اس کے دین کی خاطر اور انسانیت کے ناطے اپنا بھائی سمجھتا ہوں میں آپ کے سر کے اس مقام کا بوسہ لینے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتا کہ جہاں زنجیر کا رخم ہے۔ لیکن میرے بھائی جان!آپ کم از کم مجھے یہ حق تو دے دیں کہ میں اس سلسلے میں آپ سے اختلاف نظر رکھ سکوں ۔ میں(عزاداری کے حوالے سے) آپ کے اس طریقہ کار ( زنجیر زنی ) کو مکمل مسترد کرتا ہوں۔ میں بھی اسی دین سے وابستہ ہوں جس دین کے ساتھ آپ واستہ ہیں ،میں اس دین کا اتنا ہی درد رکھتا ہوں جتنا آپ رکھتے ہیں لیکن میں آپ کے اس عمل کو دین کی خدمت نہیں سمجھتا جیسا کہ آپ سمجھتے ہیں ۔ تو (اس اختلاف ِنظر کے باوجود) کیا آپ میرے ساتھ وہی برتاؤ اور سلوک کرسکتے ہیں جو میں آپ کے ساتھ کرتا ہوں؟! کیا آپ میرے ساتھ اس مسئلے پر ٹھنڈے دل کے ساتھ گفتگو کرسکتے ہیں ؟ کیا آپ میرے نقطہ نظر کے بارے اپنا نقطہ نظر مجھ پر خائن اور متکبر ہونے کا الزام لگائے بغیر بیان کرسکتے ہیں ؟؟ آئیں ( میری دعوت سب لوگوں کے لیے ہے ) ہم ایک آزاد ماحول میں اختلاف رائے کا اظہار کریں، ہم باہمی احترام کی فضا میں اختلاف نظر رکھیں تاکہ ہم ایک بہتر معاشرہ تشکیل دے سکیں ۔
انّه ولی التّوفيق
شیخ حیدر حب اللہ
(اضاءات جلد ۲ صفحہ ۵۴۳)
آداب منبر
سوال : محرم الحرام کی آمد آمد ہے، عاشورا پھر سے آرہا ہے ۔ ان ایام میں غم کے ساتھ ساتھ کہیں کہیں کچھ اختلافات بھی سامنے آتے ہیں کیونکہ ہر سال ان ایام میں منبروں پر ، ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا (فیس بک وغیرہ) پربعض ایسے مسائل کو اچھالا جاتا ہے جن سے خود مؤمنین کے درمیان اختلافات پیدا ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ بات قطع رحمی ، الزام تراشی ، اور شخصیت کشی تک پہنچ جاتی ہے جو مسائل ان دنوں اٹھائے جاتے ہیں ان میں سے چند ایک یہ ہیں:
زنجیر زنی ، سینہ زنی ، رونا ،رلانا ، ماتم کے دوران جزع وفزع کرنا(بلند گریہ کرنا) صحیح ہے یا نہیں؟
مقتل کی روایات اور واقعات کے مضامین شرعی معیارات کے مطابق ہیں یا نہیں؟
کیا فلان رات حضرت قاسم (عليه السلام) کی شادی ہوئی تھی؟
کیا امام حسین (عليه السلام) کے سراقدس نے نوک نیزہ پرقرآن کی تلاوت فرمائی تھی ؟
کیا عاشور کے دن زمین و آسمان نے گریہ کیا تھا ؟
کیا امامؑ کی شہادت کے وقت تمام پتھروں کے نیچے سے خون جاری ہوا تھا ؟
کیا حضرت زہرا÷مجالس عزا میں حاضر ہوتی ہیں ؟
کیا امام بارگاہ کے تمام در و دیوار کو چومنا مستحب ہے؟
کیا ماتم کے دوران نکلنے والے ماتمی کے پسینے کو مس کرنامستحب ہے؟ اور اس قسم کےدیگر بہت سے سوالات۔۔۔
تو سوال یہ ہے کہ ان امور سے ہم کیسے نمٹیں؟ علماء کے درمیان ان اختلافات اور اجتہادات کی روشنی میں ہم کس طرح منبر حسینی کی حفاظت کریں ؟ اور منبر حسینی کو فقط شیعی منبر کے طور پر پیش کرنے کے بجائے کس طرح ایک اسلامی منبر کے طور پر پیش کریں؟ کیا بہتر نہیں کہ ہم ان تمام مسائل پر خاموشی اختیار کریں اور ان کو زیادہ نہ اچھالیں؟ کیونکہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان مسائل میں پڑھنے سے اشتعال کی آگ اور بھڑک اٹھتی ہے اور ان لوگوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا ہے جو لوگ ان امور کو انجام دیتے ہیں؟ اور بعض کا کہنا ہے کہ ہم واقعہ عاشوراء کی تاریخ میں اس طرح دقت کریں جس طرح شہید مطہری (رحمه الله) نے فقہی معیارات پر اس کو پرکھا تھا ، جبکہ اس صورت میں واقعہ عاشورا سے کچھ بھی نہیں بچے گا اور لوگ بھی ان واقعات سے اس طرح متاثر نہیں ہوں گے کہ جس طرح آج ہوتے ہیں۔ تواس بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟
جواب : برادر عزیز! اگر اجازت دیں تویہاں پر میں بعض امور کی وضاحت کرتا چلوں۔
۱۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہر انسان کے اوپر واجب ہے یعنی جس کو وہ حق سمجھے اس کی طرف لوگوں کو بلائےاور جہاں کوئی انحراف یا غلط کام دیکھے اس سے روکے۔ اور یہ اتنی بڑی ذمہ داری ہے کہ جسے تمام انبیاء ، رسولوں، اولیاء اورمصلحین نے طول تاریخ میں انجام دی ہے ۔ جب کوئی عالم یا مومن کوئی عمدی یا غیر عمدی انحراف دیکھے تو اس پرواجب ہے کہ صحیح ، مؤثر اورفعال طریقے سے اس انحراف کو روکے اور اس کی اصلاح کرے،اور یہ کہہ کر جان نہ چھڑائے کہ اس میں مشکلات اور رکاوٹیں ہیں ۔
۲۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دو ذمہ داریاں ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک ذمہ داری حقیقت کو کشف کرنا ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور مسلمانوں کی اصلاح کرنا اور اس کے لیے سوچنا ہے۔ جبکہ دوسری ذمہ داری اتحاد بین المسلمین اور اتحاد بین المؤمنین ہے تاکہ وہ آپس میں پیار و محبت کے ساتھ رہیں اور ایک دوسرے کے قریب ہوں۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک ذمہ داری دوسری ذمہ داری کے مقابلے میں زیادہ اہم ہوتی ہے ، مثلا مسلمانوں کا ایک گروہ دوسرے گروہ پر ظلم کرے اور ان کے خلاف جنگ کرے تو یہاں مسلمانوں کی اصلاح کی ذمہ داری وحدت کی ذمہ داری پر مقدم ہو گی۔البتہ اگر اصلاح کی کوششوں کے نتیجے میں لڑائی جھگڑا یا دشمنی مزید بڑھ جائے کہ جو مسلمانوں کی کمزوری کا باعث بنے اور صورتحال یہ ہو کہ کوئی قابل ذکر مقصد بھی حاصل نہ ہو رہا ہو تو اس صورت میں اس مرحلے پر اسے یہیں بالکل روک لینا چاہیے یا اسلامی بھائی چارگی، اور اسلامی اور ایمانی وحدت کی خاطر کم از کم اصلاح کے طریقہ کار کو تبدیل کر دینا چاہیے۔ لیکن بعض اوقات نہ صرف امور مشتبہ ہوجاتے ہیں بلکہ اور زیادہ پیچیدہ ہوجاتے ہیں جس سے فضا آلودہ ہوجاتی ہے اور پھر صورتحال واضح نہیں ہو پاتی ، تو اس صورت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والا اگر خاموش رہے تو اس نے گویا انحراف اور غلط کام کو تقویت پہنچایا ہے، پھر اس صورت میں آئندہ آنے والی نسلوں کی بہتری کی بھی کوئی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔لہذا ممکن ہے کہ انحراف کے خلاف آواز اٹھانا اگرچہ بعض لوگوں کے لیے ناگوار گزرے لیکن یہ اس انحراف کو مستقبل میں ایک مسلمہ عقیدے کی شکل اختیار کرنے سے روکے گا نیز غلط کام کے بقا کی راہ میں بھی یہ رکاوٹ بنے گا۔ تو اس لیےضروری ہے کہ اس کی ناگواری کی پرواہ نہ کی جائے تاکہ وہ اپنے کام کو جائز اور مشروع نہ سمجھے۔ کبھی کبھی ممکن ہے کہ اصلاح کرنے والا اپنے سکوت کو ضروری سمجھے تاکہ اس سے بھی اہم امور کو انجام دے سکےلیکن اس صورت میں یہ امکان باقی رہے گا کہ انحراف ختم ہونے کے بجائے مزید پختہ ہوجائے ۔ اس صورتحال میں مبلغ یا واعظ یعنی امربالمعروف اور نہی عن المنکرکرنے والے کوچاہیے کہ وہ ان مسائل کو شرعی زاویہ نگاہ سے دیکھنے کے بجائے حالات کے تناظر میں دیکھے۔ لیکن میں خود اس بات پر اعتقاد رکھتا ہوں کہ عصر حاضر میں پہلی ذمہ داری ( اصلاح ) کو ترجیح دی جانی چاہیے لیکن شرط یہ ہے کہ جن امور کی اصلاح کی ضرورت ہے ان کے مختلف پہلوؤں کو مد نظر رکھا جائے۔ علمائے کرام ، مفکرین اور مصلحین کے انحرافات کے خلاف سکوت اختیار کرنے سے ہم ایک جمود کے دور میں داخل ہوں گے جو کہ ممکن ہےعرصہ دراز تک باقی رہے ۔ اوریہ بھی امکان ہے کہ ایک عرصے سے اصلاح کی تحریک جو تحریک جاری ہے وہ بھی ختم ہوجائے۔ اس وقت اصلاح کرنے والوں کا مقابلہ اندرونی محاذ پر ان لوگوں سے ہے جو ہر قسم کی تبدیلی کو رد کرتے ہیں اور دوسری طرف بیرونی محاذ پربھی بعض گروہوں کی جانب سے اسلام کی ایک ایسی شکل پیش کی جارہی ہے کہ جس کے نتیجے میں ممکن ہے کہ مستقبل کے نوجوانوں کو دین سے مکمل طور پر ہاتھ دھونا پڑے لہذا میں سمجھتا ہوں کہ اس زمانے میں(انحرافات کے مقابلے میں) خاموشی اختیار کرنا اسلام اور مسلمانوں کے مفاد میں نہیں ہے ۔
۳۔ جب ہم کہتے ہیں کہ اصلاح کی کوششیں ضروی ہیں اور خاموشی اختیار کرنا درست نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ جس طریقے کو چاہے ہم اختیار کریں، کیونکہ فرق ہے مثلا میں ایک مرجع تقلید پر تنقید کروں جس طرح ایک عمومی تنقید کا طریقہ ہے اور کہوں کہ مرجع خاموش ہیں اور لوگوں کی زندگیوں سے دور ہیں اس مرجع کے بدلے ایک اور مرجع ہونا چاہیے یا یوں تنقید کروں کہ جس سےنفرت کہ بو آئے مثلا یوں کہوں کہ فلاں مرجع جاہل ہے وہ اصلا مرجع تقلید بننے کہ صلاحیت نہیں رکھتا۔ اس قسم کی تنقید سے عوام الناس میں نفرت پھیلے گی۔ اسی طرح جو پیغام رسانی کا ذریعہ ہے وہ بھی اہم ہے مثلا سوشل میڈیا پر ایک خاص حد تک ہی تنقید برداشت کی جاتی ہے جبکہ دوسرے ذرائع مثلا کتابیں اور مقالات زیادہ تنقید کو برداشت کرسکتے ہیں کیونکہ اتنے زیادہ لوگ ان چیزوں سے استفادہ نہیں کرتے ۔ اصلاح کرنے والےجب صرف تنقید ہی کرنے لگیں تو ان کے گردو پیش نفرتوں اور کدورتوں کے انبار لگ جاتے ہیں ۔ آپ ان لوگوں کو دیکھیں گے کہ وہ کسی موضوع پر بھی غیر جانبدارانہ تبصرہ نہیں کرتے اور نہ ہی معاشرتی اہم امور پر بات کرتے ہیں اور نہ ہی مسائل کا حل بتاتے ہیں بلکہ وہ ہمیشہ دوسرں پر طنز کرتے ہیں تو یہ بھی یقیناً غلط طریقہ ہے۔ دوسروں کو فاسق و فاجر کہنا اور غیر اخلاقی الزامات لگانا اسی طرح کسی کی عدالت یا دینداری پہ شک کرنا بھی غلط طریقے ہیں لہذان تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھنا ضروری ہے ۔ پس اصلاح کے تمام طور طریقوں کے بارے میں پراعتماد طریقے سے سوچنا ضروی ہے کیونکہ مختلف علاقوں میں طور طریقے مختلف ہوسکتے ہیں۔
۴۔ تیسرے نکتے کے حوالے سے یہ کہنا ضروری ہے کہ نقد کی دو قسمیں ہیں۔ ایک نقد ایسا ہے کہ جس کی وجہ سے کوئی نہ کوئی رد عمل ضرورسامنے آتا ہے جبکہ دوسری حالت وہ ہے کہ جس پر عام طور پر رد عمل سامنے نہیں آتا۔ لیکن دوسرا آدمی حساس ہے اور ہر نقد کے اوپر ردعمل دکھاتا ہے یہاں تک کہ عمومی نقد پر بھی ردعمل دکھاتا ہے تو اس صورت میں پہلی صورت کے حوالے سے ذمہ دار ہے لیکن دوسری حالت کے حوالے سے ذمہ دار نہیں۔ تو مومن کا میرے اوپر حق یہ ہے کہ میں اس کی توہین نہ کروں اس کے جذبات سے نہ کھیلوں اور اس کوحقیر اور پست نہ سمجھوں اور جن چیزوں کو وہ مقدس سمجھتا ہے ان پر غیر اخلاقی انداز میں نقد نہ کروں ۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مجھے تنقید کرنے کا کوئی حق ہی نہ ہو،چاہے تنقید توہین سے خالی ہی کیوں نہ ہو، یا اس لیے کہ وہ تنقید برداشت نہ کرتا ہو، اگرچہ اخلاقی طور پر ہی کیوں نہ سہی۔ اور اس کا مجھے اس دلیل کی بنیاد پر تنقید سے روکناکہ وہ ناراض ہوتا ہے یا اسے تنقید ناپسند ہے یہ صرف میرے حق کو چھیننے کے مترادف ہو گا۔ اور جس چیز کو میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سمجھتا ہوں، یہ مجھے اس کی انجام دہی سے روکے گا، جبکہ میرا اس بات پر ایمان ہے کہ یہ کام اصلاح ہے۔ لہذا اس کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ مجھے اصلاح سے روکے اور یہ ایک بڑا نازک مسئلہ ہے ۔ تنقید کرنا ایک حق ہے بشرطیکہ اخلاقی ہو اس طرح کہ اگر کسی غیر جانبدار آدمی کے سامنے میری یہ تنقید پیش کی جائے تو وہ اسے غیر اخلاقی نہ سمجھے اور مجھے بھی دوسروں کو یہ اجازت نہیں دینی چاہیے کہ وہ یہ حق مجھ سے چھین لے۔ اگر ایسا ہے تو دوسرا فریق بھی ان باتوں پر منبر سے تنقید کرتا ہے تو کیا ہمارے لیے جائز ہے کہ اسے اس حق سے محروم کریں کہ وہ منبر یا ٹیلی ویژن پر ان باتوں سے پرہیز کریں ؟ تو ایسا ہر گز نہیں ہے کہ نقاد کے فریق کوتنقید کا حق حاصل نہ ہو، بلکہ وہ بھی حق رکھتا ہے کہ نقاد پر نقد کریں۔
۵۔ منبر حسینی ایک آزاد منبر ہے ، اور میں علامہ شیخ عبد الہادی فضلی (رحمه الله) سے اتفاق کرتا ہوں کہ انہوں نے اپنے بعض انٹرویوز میں یہ بات مسترد کر دی کہ منبر پر کسی ادارے کا کنٹرول ہونا چاہیے کیونکہ اس کےنتیجے میں کچھ عرصہ کے بعد اس کا دائرہ کار محدود ہو جائے گا۔ پس منبر حسینی کو ہم صرف علمی ابحاث اور گفتگو سے اور عمومی شعور اجاگر کرنے کے ذریعے ہی کنٹرول کرسکتے ہیں ۔ اور حتی الامکان کوشش کریں کہ با صلاحیت اور اہلیت رکھنے والے خطباء کوہی منبر پر لائیں اور خود علمائے کرام منبر کو خالی نہ چھوڑیں اور اس بڑی ذمہ داری کو ادا کرنے والوں کے لیے کڑی شرایط رکھیں اور علمائے کرام، مراجع عظام ، فقہائے کرام ،محدثین اور مورخین کو اجازت دیں کہ وہ منبر پر( بیان ہونے والے بعض قابل اعتراض باتوں پر)تنقید کریں اورحق و حقیقت اور سچائی کی طرف ان کی رہنمائی کریں۔ جب اخلاق کے دائرے میں رہتے ہوئے اصلاح کی خاطر منبر (کے بعض مطالب) اور عزاداری کی بعض رسومات پر کوئی شخص تنقید کرے تو یہ ہرگز توہین نہیں ہے، اور نہ ہی مقدسات کی ہتک حرمت ہے ۔ پس خطباء کرام کہ جن کو اللہ تعالٰی نے اس فریضے کو ادا کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے وہ اپنے اوپر تنقید کو امام حسین (عليه السلام) پر تنقید نہ سمجھیں ۔ (اضاءات جلدا صفحہ ۴۸۳)
۞ ۞ ۞
استاد حیدر حب اللہ کا مختصر تعارف
شيخ حيدر محمد كامل حبّ الله 15 جنوری 1973ء کو لبنان کے جنوبی شہرصور میں پیدا ہوئے ۔ آپ نے میٹرک کرنے کے بعد1988ء میں صور کے حوزہ علمیہ سے دینی تعلیم کا آغاز کیا ۔ مقدمات اور سطوح کی تکمیل کے بعد ۱۹۹۵ء میں حوزہ علمیہ قم تشریف لائے اور آیت اللہ سید محمود ہاشمی ، آیت اللہ باقر ایروانی اور آیت اللہ وحید خراسانی ۔۔۔جیسے جید علماء اور مراجع کرام کے دروس خارج سے کسب فیض کیا ۔حوزہ علمیہ کیساتھ ساتھ آپ نے یونیورسٹی میں بھی اعلٰی تعلیم کے حصول کا سلسلہ جاری رکھا جس کی بدولت آپ کو جدید علوم پر بھی کامل دسترس ہے۔ تعلیمی و تدریسی سرگرمیوں کے ہمراہ ترجمہ و تالیف اور ارشاد و تحقیق کے میدان میں ہزاروں صفحات پر مشتمل سینکڑوں علمی آثار آپ کی خداداد صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ آپ کے سارے علمی کام میں گہرائی و گیرائی کے علاوہ دقت نظر اور وسعت فکر کا عنصر نمایاں ہے ۔ آپ 2005ء سے تا حال حوزہ علمیہ قم میں باقاعدگی سے درس خارج کی تدریس میں مشغول ہیں۔
نوٹ: قارئین کرام! آپ جدید علمی موضوعات سے آگاہی اور اپنے سوالات ارسال کرنے کیلئے ہماری ویب سائیٹ https://hobbollah.com کا وزٹ کر سکتے ہیں۔اسی طرح +989101467254کے موبائل نمبر یا [email protected] کے ایمیل ایڈریس پر ہم سے براہ راست رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
براہ کرم !اس تحریر کا مطالعہ کرنے کے بعد دیگر احباب کو بھی مستفید کریں اور فروغِ شعور و آگہی کے مشن میں ہمارا ساتھ دیں۔والسلام