مراسم ِ عزا کی اصلاح
تالیف: استاد حیدر حب اللہ
ترجمہ: محمد عباس ہاشمی
پیشکش : ادارہ آگاہی و شعور(پاکستان)
انسانی زندگی میں رسوماتِ دینی اور ظواہرِ ایمانی کا عمل دخل خود دینی عقائد سے بڑھ کر ہے۔ یہی سبب ہے کہ ان میں ترمیم و اصلاح کا عمل دین کے دوسرے شعبہ جات کی نسبت زیادہ دشوار ہے۔شاید دینی رسوم و ظواہر کے انسانی شخصیت کا حصہ بن جانے کی وجہ یہ ہے کہ یہ دین کے ایسے حسّی مظہر ہیں جن سے انسان کا براہ راست سروکار رہتا ہے۔ ہم یہاں پر چند امور پر گفتگو کریں گے:
۱۔ مذہبِ امامیہ میں عزاداری کی رسوم منفرد خصوصیات اور مومنین کے دلوں میں خاص مقام کی حامل ہیں۔ وقت گزرنے کیساتھ یہ تحرّک اور جوش و جذبہ منتقل کرنے والے ایک ایسے آلے کی حیثیت اختیار کر چکی ہیں جن سے لوگوں میں انقلابی اور دفاعی روح پیدا کرنے میں مدد ملتی ہے۔ یہ روح، اغیار کے نفوذ یا ظالموں کے تسلط کی راہ میں رکاوٹ ہے اور ہم نزدیک سے وہ مناظر دیکھ چکے ہیں کہ جن کی تخلیق میں حسینیت کے پیغام کا حصہ ہے جیسے ایران میں اسلامی انقلاب اور لبنان میں حزب اللہ۔
حسینیت کے بنیادی پیغام کی بدولت ایک ایسے دور میں ہمارے اندر یہ روح پیدا ہوئی ہے کہ جس میں ابھی تک “جس کی لاٹھی اس کی بھینس” والا قانون حکمفرما ہے اور امریکی و اسرائیلی پالیسیاں اس امر کی شاہد ہیں۔ لہٰذا اس روح کی حفاظت، واجباتِ دین میں سے ایک واجب ہے تاکہ (اس کے ذریعے) اپنی ذات، اہل خانہ، وطن، دین اور انسان کی حفاظت کیلئے ہمتوں کو کمربستہ کیا جائے اور ارادوں کو گرمایا جائے۔ کسی بھی صورت یہ روا نہیں ہے کہ ہم اس روح اور جذبے کا خاتمہ کرڈالیں کہ جس نے طول زمان بلکہ ماضی قریب میں بھی ہمارے سامنے مؤثر نتائج پیش کیے ہیں۔
۲۔ البتہ یہ امر حالات کے پیش نظر بعض اوقات موقف اور نقطہ نظر میں اختلاف سے نہیں روکتا۔ حسینی موقف آگے چل کر حسنی موقف میں بدل سکتا ہے یا حسنی موقف، بعد میں حسینی موقف کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ اس سے مقصود یہ ہے کہ مذہب امامیہ، زیدی مذہب کے رنگ میں نہ رنگا جائے جس کے نزدیک قیام بالسیف ہی مشروع ہے اور یہ مذہب صرف اسی شخصیت کو امام سمجھتا ہے جو فاطمی ہو اور ظلم کا مقابلہ تلوار سے کرے۔
بعض اوقات عقیدے یا فکر میں یہ چیز نہیں ہوتی لیکن اجتماعی عقل اور معاشرتی شعور ایسا ہو جاتا ہے کہ لوگ اسلوب و روش کے تنوع کو بھول جاتے ہیں اور خدا و رسول (ﷺ) کی شریعت کو ایک ہی طریقہ کار اور اسلوب میں منحصر سمجھنے لگتے ہیں بلکہ بات حد اس حد تک آگے بڑھ جاتی ہے کہ اختلاف رائے رکھنے والوں پر سنگین نوعیت کی الزام تراشی کی جاتی ہے اور ان کے جذبات کو مجروح کیا جاتا ہے۔
ضروری نہیں ہے کہ ہر حسینی یا جرات و بہادری کا مظاہرہ کرنے والے کے بارے میں یہ کہنا درست ہو کہ یہ جوانی کا جوش و جذبہ ہے یا یہ غیر دانشمندانہ بیباکی ہے نہ کہ حقیقی۔ اسی طرح یہ بھی درست نہیں ہے کہ ہر حسنی موقف رکھنے والے کو اغیار کا آلہ کار، پست یا ڈرپوک کہا جائے۔۔۔ بلکہ ہمارا فرض ہے کہ تمام معاملات کا ٹھنڈے دل اور عاقلانہ و عالمانہ انداز سے جائزہ لیں اور ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کرنے سے گریز کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ افہام و تفہیم کا ماحول پیدا ہو۔
۳۔ بڑے بڑے مصلح علما کی ایک جماعت (جن میں پہلے علامہ سید محسن امین (رہ) اور آخری آیت اللہ خامنہ ای (حفظہ اللہ) ہیں جبکہ ان کے درمیان بہت سے دیگر علما کا نام بھی ہے جیسے شہید مطہری (رہ)، علامہ فضل اللہ (رہ) وغیرہ) عزاداری کی رسومات میں اصلاح کی کوشش کرتی رہی ہے۔ سید محسن امین (رہ) کا رسالہ “التنزيه” 1346ھ میں منظر عام پر آیا جس میں اہل تشیع کی جدید تاریخ کا جائزہ لیا گیا تھا لیکن مؤلف پر اس قدر تنقید کی گئی کہ مجتہدِ عصر آیت اللہ العظمٰی سید ابو الحسن اصفہانی (رہ) کو سید امین کے اصلاحی افکار کا دفاع کرنا پڑا۔
جن مراسمِ عاشورا پر مصلحین نے تنقید کی ہے، ان کا اصلاحی تحریکوں کے خلاف رد عمل کے طور پر دوچند ہو جانا؛ شاید ایک افسوسناک امر ہے (اور اس کا خدشہ بھی تھا)۔ ہم نے کچھ لوگوں میں اس ردعمل کا اس دعوت کے بعد مشاہدہ کیا تھا جس کا آغاز 1994ء میں رہبر معظم آیت اللہ العظمٰی خامنہ ای (دام ظلّہ) نے ایران کے شہر یاسوج میں پیش کردہ اپنے تاریخی خطاب میں کیا تھا۔
4۔ مراسمِ عزا کی اصلاحی تحریک کو مسترد کر دینے والے گروہ کا خیال ہے کہ مذہب امامیہ اور عقائد شیعہ جنگ و خونریزی کی تلقین کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اندرونی تنقید و اصلاح کی تحریک کو کم از کم عصر حاضر میں روک دیا جائے۔ وہ دفاع کی پالیسی کو اصلاح پر ترجیح دیتے ہیں لیکن بظاہر انہیں اس پالیسی کے نتیجے میں درپیش خطرات کا سنجیدگی سے ادراک نہیں ہے کہ جس کے نتیجے میں اندرونی مشکلات کا انبار کھڑا ہو جائے گا یہاں تک کہ غیر شیعہ سے مقابلے کے نعرے کے تحت ان میں بے پناہ اضافہ ہو سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی گروہ اپنے طور پر ان رسوم و افعال کے جواز پر یقین رکھتا ہو کہ جن کی اصلاح کی دعوت دی گئی تھی پس وہ اپنے نظریے کے حق میں ادھر ادھر کی دلیلوں اور شواہد کا سہارا لیں گے۔ البتہ ہم فی الحال اس موضوع پر تحقیق و تنقید کے درپے نہیں ہیں۔
اسی طرح کوئی گروہ اس بات کا قائل ہو سکتا ہے کہ دینی اعتبار سے ثابت نہ ہونے والی رسومات یا غیر مستند واقعات کا راستہ روکا جائے اور یہ عمل بعد میں مسلمات کی بنیادیں ہلا دینے پر منتہی ہو۔ لہٰذا وہ چھوٹے چھوٹے موضوعات کے دائرے میں معرکہ آرائی جاری رکھنے پر مصمّم ہو جاتا ہے بلکہ انہیں بڑا کر کے پیش کرتا ہے تاکہ ایک غیر حقیقی دفاعی لائن قائم کر کے دینی مسلّمات کو حملوں کی زد سے محفوظ ہے۔
۵۔ عزاداری کی رسوم اور اس قبیل کے دیگر امور میں متعدّد پہلوؤں سے اصلاحات ضروری ہیں۔ ان میں سرفہرست سیرت حسینی پر مشتمل تاریخی متون کو جھوٹ اور خیالی داستانوں سے پاک کرنا ہے کہ جنہیں وقت گزرنے کیساتھ ساتھ گھڑا گیا ہے اور ان کا نہ حدیث کے مصادر میں کوئی وجود ہے اور نہ ہی تاریخ اور مسلمانوں کی علمی میراث میں ۔ یہ کسی قوم یا گروہ کی تخلیق کردہ چیزیں ہیں اور بس۔ یہ کام علمی و معرفتی اعتبار سے بھی ضروری ہے اور اس کے ساتھ ساتھ شعور و آگہی اور تربیتی لحاظ سے بھی ناگزیر ہے۔
اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر اس تاریخی متن کو رد کر دیا جائے جو ہماری سادہ عقلوں کو بھلا نہ لگے یا جسے ہماری عقلیں خلاف معمول پائیں۔ صرف ان باتوں کو رد کیا جائے گا جن کی نفی پر تاریخی یا عقلی یا شرعی ۔۔۔ شواہد قائم ہو جائیں اور یہ شواہد ایسے منہج کے مطابق ہوں جس کی حد بندی علمی بنیادوں اور منطقی قواعد و ضوابط کی اساس پر کی گئی ہو اور یہ ان نظریات پر پورا اترتے ہوں کہ جن کی “مطالعہ تاریخ” کے باب میں تحقیق کی جا چکی ہو اور ان کے اثبات کیلئے برہان قائم کیے جا چکے ہوں، نہ کہ ان باطل نظریات پر کہ جن کا ہدف ہی جعل سازی یا ۔۔۔ ہے۔
صرف یہ سزاوار نہیں ہے کہ جھوٹ اور جن باتوں کے بارے میں علم (خواہ وہ عام اطمینان آور علم ہو) ہے کہ وہ صادر یا واقع نہیں ہوئی ہیں؛ سے دوری اختیار کی جائے بلکہ ضروری ہے کہ سیرتِ حسینی کی عمارت کو تاریخ و حدیث پر تنقید کے اصولوں پر تعمیر کیا جائے۔ پس جو چیز ثابت شدہ نہیں ہے (خواہ اس کا عدم ثابت نہ بھی ہوا ہو) حد اقل اس کو کم رنگ کیا جانا چاہئیے۔ اسی طرح تاریخی اعتبار سے جس چیز کو ترجیح نہیں ہے تو اس کے مد مقابل کہ جسے ترجیح ہے،کو مقدم کیا جائے۔ جامع تعبیر یہ ہو گی کہ حسینی انقلاب کے واقعات اور اس کے بارے میں ہم تک پہنچنے والے تاریخی متون کیساتھ جو بھی معاملہ کیا جائے وہ ان کی صحت و درستگی کے درجے کو ملحوظ خاطر رکھ کر کیا جائے۔ پس جس کی درستگی پر یقین ہو؛ اس کی ترویج کرنا، اس پر اصرار کرنا اور اس کی اشاعت کرنا سزاوار ہے۔ البتہ غیر یقینی چیزوں کو ان کی علمی و تاریخی قدر و قیمت کے حساب سے پیش کیا جائے۔ صرف رائے عامہ کی رغبت کو نہ دیکھا جائے کہ جس کی تاویل و توجیہہ کا ہم (جو علما کہلاتے ہیں) سے مطالبہ کیا جاتا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہی رغبت ہماری حرکات و سکنات کا رخ متعین کرنے لگے۔
اقوامِ عالم کی حالت زار یہ ہے کہ یہ تسلسل کے ساتھ خرافات بھرے اعتقادات کی پیداوار میں مصروف ہیں جیسا کہ تمام ادیان کی تاریخیں اس بات کی تائید کرتی ہیں اور علمائے دین، مسلم مفکّرین اور اجتماعی مصلحین کا کردار بنیادی طور پر ایک ایسی چھلنی والا ہے جو وہم و خرافات سے آلودہ ہو جانے والی اس پیداوار کو پاک و صاف کرتی ہے۔ اگر یہ چھلنی کام کرنا چھوڑ دے تو سارا ماحول آلودہ ہو جائے گا اور اس میں زندگی بسر کرنا مشکل ہو جائے گا۔
۶۔ اصلاح کے دیگر ضروری عناصر میں سے ایک ظواہرِ عامہ کی اصلاح ہے اور ان میں شرعی، عقلی اور انسانی معیارات کے مطابق تجدید نظر کرنا ہے۔ کچھ ایسے ظواہر ہیں جن پر نقد و تبصرہ ضروری ہے تاکہ حسینی انقلاب کی ایسی تصویر پیش کی جائے جو زیادہ خوبصورت ہو اور اس کا دلوں پر زیادہ اثر ہو۔ پس ظواہر جیسے قمہ زنی، (سروں پر تلواریں مارنا) بدن کو زنجیروں میں جکڑنا، زنجیر زنی، سخت خونی ماتم، مرد حضرات کی نیم برہنگی جو بعض اوقات دیکھنے میں آتی ہے، آگ پر چلنا، معصومین (عليهم السلام) کے مراقدِ مطہرہ کے دروازوں پر رینگنا یا کتوں کی طرح چلنا (اور خود کو آئمہ (عليهم السلام) کا کتا کہنا) یا اس کے مترادف نام رکھنا وغیرہ اور اس کے علاوہ دیگر ظواہر جن پر (ہمارے نقطہ نظر کی رو سے) کوئی شرعی دلیل قائم نہیں ہوئی ہے بلکہ یہ دوسروں کے ہاتھ میں ایک اسلحے کی حیثیّت اختیار کر چکے ہیں جس سے وہ دنیا بھر میں مذہبِ امامیہ کو مسخ کر رہے ہیں۔
اس سے ہمارا مقصود یہ نہیں ہے کہ ہم دوسروں کی خاطر یا ان کے منفی پراپیگنڈے کی وجہ سے اپنے عقائد اور شعائر سے دستبردار ہو جائیں۔ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ مصلحت و فساد کے مابین تزاحم کے قانون کو ملحوظ خاطر رکھیں اور خاص بات یہ ہے کہ یہ رسومات عنوانِ اوّلی کے تحت زیادہ سے زیادہ مستحب ہیں نہ کہ واجب تو شائستہ نہیں ہے کہ مستحب کو ادا کرنے کی خاطر حرام میں مبتلا ہوا جائے۔
۷۔ ہم یہ مطالبہ نہیں کر رہے کہ ان مراسم کو طاقت کے استعمال سے سرکوب کر دیا جائے یا ان سے سختی و بے رحمی سے نمٹا جائے۔ ہمارے نزدیک یہ کام بہت زیادہ مفید نہیں ہے۔ صرف مقصود یہ ہے کہ علم و آگہی کو عام کیا جائے اور لوگوں کی سطحِ شعور کو بلند کیا جائے بلکہ کچھ علما کے شعور کو بھی بلند کرنے کی ضرورت ہے؛براہ راست یا بالواسطہ، عوام کو برانگیختہ یا مشتعل کیے بغیر۔
جب ہم (اصلاحات کے نفاذ کیلئے) دباؤ یا سختی کی مشق کرتے ہیں تو کمیت کے اعتبار سے بعض اوقات (خاص نوعیت کے) دینی اعتقادات و احساسات پر یقین رکھنے والوں کی تعداد کم ہو جاتی ہے لیکن باقی بچ جانے والے تھوڑے سے لوگوں کے ذہن میں یہ تصورات راسخ ہو جاتے ہیں اور ان کی گہرائی و گیرائی اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ حامیوں کی قلت کے باوجود وہ ایک مضبوط گروہ بن کر ابھرتے ہیں۔
ان اصلاحی سرگرمیوں کو قبول نہ کرنے والے افراد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی رائے کا اظہار کریں اور انہیں کچلا یا خوفزدہ یا خوار نہ کیا جائے۔ اسی طرح انہیں بھی دوسروں کو صرف اختلاف رائے کی وجہ سے دبانے یا ان پر فسق و کفر و گمراہی کی تہمتیں لگانے کا کوئی حق نہیں ہے۔
۸۔ اصلاح کا نمایاں ترین مصداق یہ ہے کہ حسینی انقلاب کو پیش کرنے والے وسائل کو ترقی یافتہ بنایا جائے۔ مروّجہ مجالس عزا، انقلابی سوچ کی نشر و اشاعت کا تنہا راستہ نہیں ہیں بلکہ کچھ جدید طریقے بھی ہیں جن کا پرانے طریقوں پر اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔ حسینی انقلاب کے حوالے سے فلمیں بنائی جائیں، ٹیلی وژن، سیٹلائیٹ چینلز اور کمپیوٹر کے ذریعے اس کی ترویج کی جائے، بچوں اور نوجوانوں کیلئے اسے کہانیوں، ناولوں اور داستانوں کی شکل میں پیش کیا جائے۔ یہ سب جدید وسائل ہیں جنہیں حسینی اہداف کی ترویج کے حوالے سے بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔
اسی طرح مجالس عزا اور جلوسوں میں نظم و ترتیب، حسن و جمال اور خوبصورتی و زیبائی پیدا کر کے انہیں ممتاز کرنا اور انہیں مسلسل بہتری کے مراحل پر فائز کرنا؛ احیائے عزاداری کی سطح کو بلند کرنے کے لیے ممد و معاون ہیں اور ان امور کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تاکہ ہماری مجالس اور جلوس اسلام کی تبلیغ کا فورم ثابت ہوں کہ جس سے جذبات و احساسات کیساتھ ساتھ فکر و طرز تفکر کو بھی پیش کیا جا سکے اور کہیں ایسا نہ ہو کہ انہیں جعل سازی اور حقائق کو مسخ کرنے کیلئے اچک لیا جائے۔
عزاداری کے احیا کی صورتیں اور شکلیں ایک انسانی امر ہے جو کسی الٰہی نص یا دینی حکم کے تحت نہیں ہیں۔ یہ مختلف معاشروں کے اجتماعی اور ثقافتی حالات کے مطابق ہوتی ہیں۔ بس شرط یہ ہے کہ یہ دین کے عمومی قواعد و ضوابط، اخلاقیات اور اصولوں سے متصادم نہ ہوں۔ یہ چیز اس امر کا جواز فراہم کرتی ہے کہ زمانی تقاضوں کے پیش نظر جدید اور ترقی یافتہ شکلوں میں عزاداری کا احیا کیا جا سکتا ہے۔ یہ جدّت پسندی کسی کے خوف یا کسی سے حیا کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ یہ ہماری قومی فعالیتوں کو پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لینے والی ترقی کیساتھ مزید ہم آہنگ کرنے کی ایک صادقانہ و عاقلانہ رغبت ہے ۔