حیدر حب اللہ
مترجم: محمد عباس ہاشمی
سوال: کیا کتب اربعہ کے مؤلفین کہ جنہوں نے روایات کو اپنی کتب میں ایسے قرائن پر مشتمل ہونے کی بنا پر ثبت کیا ہے جو ان کے معصوم ؑ سے صادر ہونے پر دلالت کرتے ہیں؛ کی نقل کردہ روایات پر اصالۃ الحس کے قاعدے کی تطبیق ممکن ہے؟ تاکہ ہم ان روایات کو چھوڑ دیں جن پر اعتماد کرنے میں اجتہاد کی دخالت ہو اور ان کے ماسوا کو نص کی درستگی اور آئمہ ؑ سے صادر ہونے کی قابلیت کا خیال رکھتے ہوئے اخذ کر لیں؟
جواب: اگر میں دقت کے ساتھ آپ کا سوال سمجھ پایا ہوں (تو اس کا جواب یہ ہے کہ) اصالۃ الحس زیادہ سے زیادہ یہ ثابت کرتی ہے کہ شیخ کلینیؒ یا شیخ بخاری تک یہ کتب یا روایات ان مشائخ کے ذریعے پہنچی ہیں کہ جن سے انہوں نے سنی ہیں یا جنہیں پڑھ کر سنائی ہیں یا جنہوں نے ان کو اجازت دی و علی ھذا القیاس۔
یہ بات ان کیلئے ثابت ہے لہٰذا ان کی اپنے شیوخ و اساتذہ سے نقل ہمارے لیے حجت ہو گی یا تو اس لیے کہ اس سے اس نقل کا علم یا اطمینان حاصل ہوتا ہے اور یا اس لیے کہ ہمارے نزدیک اس شیخ کی وثاقت ثابت ہے لہٰذا اس کی اپنے شیخ سے حسّی روایت حجت ہو گی۔
لیکن جو روایات انہوں نے ہمارے لیے اسانید و وسائط کے ذریعے نقل کی ہیں؛ ان کا اثبات ان کیلئے حسّی نہیں ہے، تو وہاں حسیّت کا کیا مطلب ہے؟
أ۔ اگر حسّی ہونے سے مقصود یہ ہو کہ انہوں نے اسے اپنے مشائخ سے سنا ہے تو یہ درست ہے لیکن اس سے حدیث کی معصوم ؑ کی طرف نسبت ثابت نہیں ہوتی بلکہ اس کی کلینیؒ یا بخاری کے شیخ کی طرف حسّی نسبت ثابت ہوتی ہے۔
ب۔ اگر حسّی ہونے سے مقصود یہ ہو کہ امام ؑ کا قول ان کی نسبت حسّی ہے تو اس فرض کی بنا پر دو احتمال ہیں:
۱۔ ان روایات کا ان تک حسّی طریقے سے پہنچنا مراد ہو خواہ بالواسطہ، اس بنا پر شیخ کلینیؒ نے اپنے شیخ سے حسّی طور پر روایت کو اخذ کیا اور اسی ترتیب سے امام ؑ تک (ہر شیخ نے اپنے شیخ سے حسی طور پر اخذ کیا)۔ یہ احتمال درست ہے جب تک اس مقام پر کوئی قرینہ یا ابہام و پیچیدگی نہ ہو لیکن یہ حسیت اُس انداز سے مطلقا ثبوتِ حدیث کے مساوی نہیں ہے جیسا کہ اس حسیت میں ہے جسے کلینیؒ ؒ نے بذات خود حاصل کیا ہو اور ہمارے لیے نقل کیا ہو کیونکہ مثال کے طور پر راویوں کی وثاقت ثابت نہ ہونے کی صورت میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو یہ اطمینان دلائے کہ انہوں نے انہی سے سنا ہے جن سے روایت کیا ہے، اس لیے کہ اس کے جعلی ہونے کا امکان ہے لہٰذا ہمیں اس مقام پر حسّیت کے اثبات کی ضرورت ہو گی اور پھر خبر ثقہ کی حجیت کے کبرٰی کی اور دونوں میں سے کوئی ایک کافی نہیں ہے (بلکہ دونوں ساتھ ساتھ ہوں)۔ جب دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ملایا جائے گا تو خبر کی حسیت اور حجیت ثابت ہو گی لیکن خبر کی حسیت شخصِ کلینیؒ کی نسبت ثابت نہیں ہو گی بلکہ کلینیؒ اور باقی سلسلہ سند سے تشکیل پانے والے مجموعے کی نسبت ثابت ہوگی اور اسی لیے ہم خبر واحدِ ثقہ کی حجیت کے قاعدے کو واسطوں کی خبروں پر منطبق کرتے ہیں؛ کیونکہ فرض یہ ہے کہ ہر راوی اپنے شیخ سے (اور وہ اپنے شیخ سے۔۔۔) نبی ؐ اور امام ؑ تک حسی طور پر نقل کرتا ہے پس ساری کی ساری خبر، (متعدد) حسّی خبروں کا مجموعہ ہے اور خبر ثقہ کی حجیت کے سبب ثقہ کی ہر حسّی خبر حجت ہے، تو پس یہ مجموعہ حجّت ہے۔
۲۔ یہ مراد لیا جائے کہ مثلاً کتب اربعہ کے مؤلفین کیلئے حدیث بذات خود حسّی ہے بلا واسطہ۔ یہ فرض واضح البطلان ہے کیونکہ انہوں نے یہ حدیثیں معصوم ؑ سے نہیں سنیں۔ رہی یہ بات کہ انہیں قرائن (مثال کے طور پر قرآن سے موافقت وغیرہ) کی وجہ سے صدور کا یقین حاصل ہوا تو یہ چیز ہماری نسبت ان کی خبر کو حسّی نہیں بنائے گی کیونکہ کسی شے کا یقین اس کی حسیّت کے مساوی نہیں ہے اور ایسا نہیں ہے کہ جو بھی کسی ایسی چیز جس پر وہ یقین رکھتا ہے؛ کے بارے میں خبر دے تو وہ اس کے بارے میں حسی خبر دیتا ہے (جیسا کہ اسلامی فقہ میں “قاضی کا اپنے علم کے مطابق فیصلہ” کی بحث میں علما نے اس کی وضاحت کی ہے) کیونکہ ان کا یقین ہمارے لیے حجت نہیں ہے اور نہ ہی اس کے مساوی ہے، پس ان قرائن کے نتیجے میں کہ جنہیں ہم پوری طرح نہیں جانتے؛ انہیں احادیث کے بارے میں یقین حاصل ہوا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کا امام ؑ سے خبر نقل کرنا حسّی ہے۔
اس بنا پر حدیث کی جوامع کے مؤلفین کی روایات (بشرطیکہ ان میں اسناد کامل ہو نہ یہ کہ حذف اسناد کے ساتھ مرفوع حالت میں ہوں) اس معنی میں حسی ہیں کہ ان میں حس ہر راوی کو اپنے بلاواسطہ مروی عنہ(جس سے اس نے براہ راست روایت کیا ہے) کی نسبت سے شامل ہے ۔ اسی لیے ہم ان پر خبر واحد ثقہ کی حجیت (کا قاعدہ )جو اصولیوں کے نزدیک حسی طور پر خبر دینے کے ساتھ مشروط ہے؛ منطبق کرتے ہیں۔
جناب کلینیؒ رہ اگر اس طریقہ کار سے ہٹ کر ہمیں روایت کے بارے میں خبر دیتے ہیں تو ان کی یہ خبر غیر حسّی ہو گی، ہمیں اس کے حسّی نہ ہونے کا یقین ہے، تو ہم یہاں اصالۃ الحس کو اس بنیاد پر کہ عقلا کے نزدیک اس قسم کا قاعدہ ثابت ہے اور وہ اسے حسّیت و عدم حسیت میں شک کے موارد میں جاری کرتے ہیں؛ کیسے جاری کر سکتے ہیں؟!
اس بنا پر، ہمیں جن روایات اور کتب حدیث کے بطلان کا اطمینان ہو، ہم انہیں حذف کر دیں گے اور ان کے ماسوا پر اپنے اختیار کردہ نظریے کی پیروی کرتے ہوئے حجیّتِ خبر کے قواعد لاگو کریں گے اور اس نظریے کی اساس یہ ہے کہ حسّیت اور وثاقت یا کم از کم وثوق دو الگ چیزیں ہیں۔