• الرئيسية
  • السيرة الذاتية
  • الكتب والمؤلفات
  • المحاضرات والدروس
  • المقالات
  • الحوارات واللقاءات
  • المرئيات
  • الأسئلة والأجوبة
  • لغات اُخرى
  • تطبيق مؤلفات حب الله
  • آراء
الموقع الرسمي لحيدر حب الله
# العنوان تاريخ الإعداد تاريخ النشر التعليقات الزائرين التحميل
اہل بیت ؑ کے احکام میں قرآن و سنّت کی نصوص کا حوالہ 2020-06-30 2020-06-30 0 1352

اہل بیت ؑ کے احکام میں قرآن و سنّت کی نصوص کا حوالہ

حیدر حب اللہ

مترجم: محمد عباس ہاشمی

سوال: جن آئمہ اہل بیت ؑ پر شیعہ ایمان رکھتے ہیں؛ کیا وہ بیانِ احکام کے وقت، قرآن کریم اور سنت شریفہ کا سہارا لیتے تھے اور قرآنی و حدیثی نصوص سے اپنا استدلال قائم کرتے تھے یا رسول اللہ ؐ کی مثل نصوص کے بغیر حکم صادر کرنے میں مستقل تھے اور گویا وہ رسول ؐکی مانند تھے؟

جواب: آئمہ اہل بیت ؑ سے یہ وارد ہوا ہے کہ وہ اپنی رائے سے کچھ نہیں کہتے بلکہ وہی کہتے ہیں جو کتاب و سنت میں آیا ہے اور جو کچھ ان کے پاس ہے وہ اللہ تعالٰی کی کتاب اور ان کے جد رسول اللہ ؐ کی علمی میراث سے ماخوذ ہے۔

سورۃ بن کلیب کی روایت اور حماد بن عثمان کی صحیحہ میں ہے کہ وہ کہتے ہیں: میں نے ابو عبد اللہ ؑ سے عرض کیا: امام ؑ کس چیز سے فتوٰی دیتے ہیں؟ آپ ؑ نے فرمایا : کتاب سے۔ میں نے عرض کیا جو چیز کتاب میں نہ ہو؟ فرمایا: سنت سے، میں نے عرض کیا: جو چیز کتاب و سنت میں نہ ہو؟ فرمایا: کوئی ایسی چیز نہیں ہے مگر یہ کہ کتاب و سنت میں موجود ہے، کہتے ہیں: میں نے ایک یا دو مرتبہ اپنی بات دہرائی، آپ ؑ نے فرمایا: الٰہی تائید و توفیق ان کے شامل حال ہوتی ہے اور جو تو گمان کر رہا ہے، وہ نہیں ہے۔ (بصائر الدرجات: ۴۰۷۔۴۰۸)

صحیحہ سماعۃ میں امام أبو الحسن موسٰی ؑ سے روایت ہے، راوی کہتا ہے کہ میں نے امام ؑ سے عرض کیا: کیا ہر چیز اللہ کی کتاب اور اس کے نبی ؐ کی سنت میں ہے یا آپ ؑ اپنی طرف سے کہتے ہیں؟ امام ؑ نے فرمایا: یقینا ہر چیز اللہ کی کتاب اور اس کے نبی ؐ کی سنت میں ہے۔ (الکافی ۱: ۶۲؛ بصائر الدرجات: ۳۲۱، ۳۲۲)

قتیبہ کی خبر میں ہے، وہ کہتے ہیں: ایک شخص نے ابو عبد اللہ ؑ سے کسی مسئلے کے بارے میں پوچھا تو امام ؑ نے جواب ارشاد فرما دیا، اس مرد نے کہا: اگر ایسے اور ایسے ہو تو آپ ؑ کی کیا رائے ہے اور اس میں آپ کا قول کیا ہو گا؟ امام ؑ نے فرمایا: “خاموش! میں نے جس چیز کے بارے میں تجھے جواب دیا ہے، وہ رسول اللہ ؐ سے ہے، ہمارا “ارأیت[1]” سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

صحیحہ جابر میں ہے کہ انہوں نے کہا: ابو جعفر ؑ نے فرمایا: اے جابر، خدا کی قسم! اگر ہم لوگوں سے اپنی رائے کے مطابق احادیث بیان کریں یا کرتے تو ہم ہلاک ہو جاتے، لیکن ہم ان سے ان آثار کی رو سے احادیث بیان کرتے ہیں جو رسول اللہ ؐ سے ہم تک پہنچے ہیں کہ جنہیں ایک بزرگ دوسرے سے وراثت میں پاتا ہے، اسے ہم ذخیرہ کرتے ہیں جیسے وہ لوگ اپنے سونے چاندی کو ذخیرہ کرتے ہیں۔ (بصائر الدرجات: ۳۱۹ ۔۳۲۰)

اور محمد بن شریح اور احول کی خبر کا مضمون اس سے قریب ہے کہ جو چھ سندوں کے ساتھ روایت ہوئی ہےاور ہر سند ان تینوں اشخاص پر منتہی ہوتی ہے۔

جابر بن یزید الجعفی کی خبر میں ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے ابو جعفر محمد بن علی الباقر ؑ سے عرض کیا: جب آپ ؑ مجھ سے کوئی حدیث بیان فرمائیں تو میرے لیے اس کی سند بیان کیجئے، آپ ؑ نے فرمایا: “میرے والد نے حدیث بیان کی ہے میرے جد سے، انہوں نے رسول اللہ ؐ سے، انہوں نے جبرائیل سے، انہوں نے اللہ عزّوجل سے اور میں تیرے سامنے جو حدیث بھی پیش کرتا ہوں اس کا سلسلہ سند یہی ہے۔

اور فرمایا: “اے جابر! ایک سچے شخص سے جو ایک حدیث تو اخذ کرتا ہے وہ تیرے لیے دنیا و مافیھا سے بہتر ہے۔ (أمالی المفید: ۴۲)

اور سلیمان بن خالد کی خبر میں ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے ابو عبد اللہ ؑ کو یہ فرماتے سنا: بلاشبہہ ہمارے پاس ستر گز کا ایک صحیفہ ہے، جسے رسول اللہ ؐ نے لکھوایا اور علی ؑ نے اپنے ہاتھ سے تحریر کیا، کوئی ایسا حلال و حرام نہیں ہے مگر یہ کہ اس میں درج ہے، یہاں تک کہ خراش کی دیت بھی” (بصائر الدرجات: ۱۶۳۔۱۶۲؛ اور مزید روایات کیلئے ملاحظہ کیجئے:کافی:۲۴۲:۱)

اور حال ہی میں شیخ محمد جعفر مروجی الطبسی نے دو جلدی کتاب شائع کی ہے کہ جس کا نام (تمسّک العترۃ الطاھرۃ بالقرآن الکریم) ہے۔ اس کا مقدّمہ عالم تشیّع کے مرجع شیخ جعفر سبحانی حفظہ اللہ نے تحریر کیا ہے اور اسے مرحوم مرجع تقلید شیخ محمد فاضل لنکرانی رحمہ اللہ کے قائم کردہ ادارے “مرکز فقہی آئمہ اطہار ؑ” نے شائع کیا ہے۔ اس کتاب میں مؤلف نے ان موارد کو جمع کیا ہے جن میں اہل بیت نبویؑنے اپنا فتوٰی بیان کرتے وقت قرآن کریم پر اعتماد کیا اور اس کی آیات سے شاہد پیش کیا اور اس کی نصوص سے استدلال کیا ہے۔ ان کی کتاب میں اہل بیت ؑ سے منقول ۵۶۳ روایات موجود ہیں کہ جن میں اہل بیت ؑ کی جانب سے جن قرآنی آیات کے ذریعے فقہی استدلال کی وضاحت کی گئی ہے، ان کی تعداد تقریبا ۷۰۰ تک جا پہنچتی ہے۔ یہ کتاب اس موضوع پر اور آیات احکام کی روائی تفسیر کی تحقیق کے حوالے سے بہت مفید ہے۔

ہماری دعا ہے کہ اللہ انہیں اس اچھے عمل کی بہترین پاداش عطا فرمائے۔

ایک اور کاوش میں ان احادیث شریفہ کا مکمل استقرا ملتا ہے کہ جن میں قرآن کریم کی آیات کے ساتھ استناد (واستدلال) کیا گیا ہے اور اس تحقیق کے مطابق امامیہ کی احادیث میں سے فقہی احکام پر مشتمل نصوص میں تقریبا ۸۰۰ سے زائد آیات کے ساتھ استناد کیا گیا ہے۔

 (مراجعہ کریں: موسوعۃ الفقہ الاسلامی طبقا لمذھب أھل البیت ۲: ۴۸، ۴۳۷- ۴۴۲)

اس بنا پر اہل بیت ؑ سے منقول احادیث میں بہت سے فتاوٰی قرآن کریم کی مرجعیت کی بنیاد پر قائم ہیں۔ اس کے علاوہ جن نصوص میں سنت نبوی ؐ پر اعتماد کیا گیا ہے یا ان کے ساتھ استدلال کیا گیا ہے وہ بھی بہت زیادہ اور معروف ہیں۔ اس موضوع کے مختلف پہلوؤں کی طرف مراجعہ کرنے کیلئے آپ میری کتاب (حجیۃ السنۃ فی الفکر الاسلامی، قراءۃ و تقویم: ۵۱۷۔۵۶۹) کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔

______________________________

[1] “أرأیت” اشارہ ہے اہل رائے کی ایک جماعت کی طرف جو دوسری صدی میں ظاہر ہوئے اور وہ فرضی صورتوں پر بہت زیادہ اعتماد کرتے تھے۔

إرسال

you should login to send comment link

جديد الأسئلة والأجوبة
  • تأليف الكتب وإلقاء المحاضرات بين الكمّ والنوعيّة والجودة
  • مع حوادث قتل المحارم اليوم كيف نفسّر النصوص المفتخرة بقتل المسلمين الأوائل لأقربائهم؟!
  • استفهامات في مسألة عدم كون تقليد الأعلم مسألة تقليديّة
  • كيف يمكن أداء المتابعة في الصلوات الجهرية حفاظاً على حرمة الجماعات؟
  • هل يمكن للفتاة العقد على خطيبها دون إذن أهلها خوفاً من الحرام؟
  • كيف يتعامل من ينكر حجيّة الظنّ في الدين مع ظهورات الكتاب والسنّة؟!
  • هل دعاء رفع المصاحف على الرؤوس في ليلة القدر صحيحٌ وثابت أو لا؟
الأرشيف
أرسل السؤال
الاشتراك في الموقع

كافة الحقوق محفوظة لصاحب الموقع ولا يجوز الاستفادة من المحتويات إلا مع ذكر المصدر
جميع عدد الزيارات : 36549426       عدد زيارات اليوم : 16597